یہ ایک ’منی گیارہ ستمبر‘ تھا جب اس شہر کا قتل ہوا تھا۔ جب 1988 میں، اسی تیس ستمبر، اسی جمعے کے دن حیدرآباد سندھ کی سڑکوں، بازاروں، گلیوں اور محلوں میں کاروں پر سوار مسلح افراد نے تین سو لوگوں کو قتل کیا تھا۔ کئی لوگ اسے’ کالا جمعہ‘ بھی کہتے ہیں۔
جن لوگوں نے بھی حیدرآباد کی شامیں دیکھی ہیں انہیں وہ شامِ اودھ اور، اگر کہیں ہے، تو جنت میں بھی یاد آئیں گی۔ اور وہ بھیانک ایسی شام ہوکر شہر پر اتری تھی لیکن اس شام شہر میں غیر معمولی رش تھا۔
ابھی بھٹائی کا میلہ ختم ہوا تھا اور اندرون سندھ اور حیدرآبار کے دور دراز سے آئے ہوئے میلے کے زائرین بھی گھروں اور دیہاتوں کو واپس جانے سے پہلےایک چکر ریشم گلی، شاہی بازار اور مارکیٹ کا لگانے اور خریداری کو آئے تھے، علی کے قدمگاہ کی زیارت بھی کرنی تھی اور اس ستمبر کو امام حسین کے چہلم کے بھی دن تھے۔
کراچی اور اندرون سندھ جانیوالی بسوں کے اسٹاپوں پر بھی رش تھا۔ سنیما گھروں میں میٹنی شو ابھی ختم ہی ہوا تھا۔ پورے شہر میں کرکٹ کھیلنے والے بچوں کے ٹیمیں شور مچاتی اپنے گھروں کو واپس جانے لگی تھیں۔ پھلیلی ہو کہ لطیف آباد کے گنجان علاقے بقول شخصے کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔
پکے قلعے پر مشہور حاجی ربڑی والے کی دکان پر خریداروں کا تانتا بندھا تھا اور کہتے ہیں کراچی کے سفر سے پہلےگاڑیوں کے قافلے میں ایک دولہے اور دلہن سمیت ایک بارات بھی ربڑی کے خریداروں میں تھی اور لوگوں کی ایسے ہی ایک بھیڑ ہیرآباد میں مشہور’ گلاب پان ہاؤس‘ پر تھی۔ یہی حال کھدڑا گلی عرف پھول گلی کا تھا۔
حیدرآباد ميں ستمبر کی وہ شام سندھی شاعر میر کاظم تالپور کی اس اب شہرہ آفاق غزل کی طرح تھی جس کی دھنیں اب قومی اور بین الاقوامی سطح پر بار بار چوری ہوئی ہیں: ’شام جو ہی پھر نانو اساں جے کیو‘ ( ’شام کا یہ پہر میرے نام کرو‘)۔ اسی شام کراچی کی ایک ادبی تقریب میں وائسز موسیقی گروپ کے منور پٹھان نے بھی فیض اور ایاز کی شاعری گائی تھی۔ منور پٹھان کراچی کی شاہ فیصل کالونی نمبر ایک میں رہتا تھا۔
نیویارک شہر کے بالائی حصے میں سینٹرل پارک کے باہر ہارلیم والے علاقے میں لوگوں کی طرح حیدرآباد سندھ کے بھی لیڈی ڈفرن ہسپتال کے قریب سٹیشن روڈ اور سرفراز چاڑہی کے قریب سول ہسپتال روڈ پر ابھی شطرنج کے کھلاڑیوں نے اپنی بساط جمائی ہی تھی۔ مارکیٹ روڈ پر زرین شادی ہال اور لطیف آباد کے مسرت شادی ہال میں شادیوں کی تقریبات شروع ہی ہوئی تھیں۔
ابھی ابھی شام کے اندھیرے اترتے ، بتیاں جلنے کو ہی تھیں کہ شہر کے بہت سے علاقوں میں بجلی چلی گئی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ لوگوں کے اژدہام کو چیرتی تیز رفتار کاروں سے ہتھیار بندوں نے کلاشنکوفوں اور رائفلوں سے لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسانی شروع کردیں۔
یہ مناظر نیویارک شہر میں1976 میں ہونیوالے قتل عام پر بننے والی فلم ’سمر آف سام‘ کا سِین لگتے تھے۔ سنہ 76کے نیویارک میں وہ قتل عام تو کسی ایک جنونی دہشت گرد کی کاروائی تھی لیکن یہ تو کہتے ہیں حیدرآباد میں کم از کم ستر جگہوں پر ایک ہی وقت پر ننجا ایکشن کی طرح کاروائی تھی۔
اس واقعے کے چشم دید گواہوں میں سے چند کا دعوٰی تھا کہ ریشم گلی اور بعض دوسرے مقامات پر انہوں نے دو دو کلاشنکوف برداروں کو کاروں سے اتر کر پیٹھ سے پیٹھ ملا کر لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برساتے دیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ گنجان علاقوں اور تنگ گلیوں میں بھی حملہ آوروں نے گھس کر تڑا تڑ گولیاں برسائیں۔
تیس ستمبر کو حیدرآباد میں یہ حملے زیادہ تر ان علاقوں میں ہوئے جہاں بڑی اکثریت سے مہاجر یا اردو بولنے والی آبادی بستی ہے اور اس میں ہر زبان، جنس، عمر اور زبان کے لوگ شامل تھے لیکن مرنے اور زخمی ہونیوالوں میں بڑی تعداد اردو بولنے والوں کی تھی۔ رپورٹوں کے مطابق کوئی تین سو کے قریب لوگ مارے جانیوالے لوگوں میں اسّی سندھی بولنے والے بھی تھے۔ سول ہسپتال اور شادی ہالوں پر بھی فائرنگ ہوئی۔ اسٹیشن روڈ کی قریب تعزیت کیلیے بیٹھے ہوئے لوگوں نے دریاں سمیٹيں۔
بیس لاکھ کی آبادی والے شہر میں ایک ہی وقت کاروں پر سوار قاتلوں کی ان ٹولیوں نے ایک ہی وقت بہت سے علاقوں میں گولیاں برسائیں۔ کہتے ہیں کہ ایک ٹولی نے فرار ہوتے وقت سنٹرل جیل پر بھی ہوائی فائرنگ کی اور نعرے لگائے جس کا جواب سینٹرل حیل کی دیواروں سے بھی نعروں میں دیا گیا۔
اگرچہ اگلے روز صبح کے اخبارات میں صرف یہ روزنامہ ’جنگ‘میں خبر تھی کہ حیدرآباد کے تیس ستمبر کے قتلِ عام میں مبینہ طور سندھی قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی اور ان کی اس وقت کی پارٹی جیے سندھ ترقی پسند پارٹی کے لوگ ملوث تھے لیکن غیر مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ جامشورو سے لیکر قاسم آباد میں بہت سی سندھی آبادیوں میں یہ بات اسی شام ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ یہ کارروائی کن لوگوں نے کی تھی۔
مبینہ طور جہاں حیدرآباد کے تیس ستمبر کے قتل عام میں ڈاکٹر قادر مگسی اور ان کی پارٹی کے لوگوں کے نام لیے گئے تھے وہاں ان کے ساتھ جو اس واقعے میں نام آئے ان میں سندھ کے بدنام ڈاکو جانو آرائیں، نور جان مگسی، حسن چانڈیو، لائق چانڈیو اور دیگر سیاسی و غیر جرائم پیشہ افراد کے نام بھی لیے گئے تھے۔
وہاں ایسے کمانڈو ایکشن کی طرح کے حملوں کے بعد حیدرآباد اور کراچی میں بھی مبینہ طور ایم کیو ایم اور دیگر مہاجر مسلح گروپ سڑکوں اور محلوں میں نکل آئے اور صبح تک صرف کراچی میں ایک سو کے قریب سندھی مرد، عورتیں اور بچے قتل کیے جا چکے تھے۔
کہتے ہیں کراچی میں حیدرآباد کے ردعمل میں قتل عام کے ہدایت کاروں میں مبینہ طور ایم کیو ایم کے رہنما سلیم شہزاد اور اشفاق چیف شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ رات گئے تک الطاف حسین کی صدارت میں ایم کیو ایم کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں اس شام حیدرآباد کے واقعات کے ردعمل کو روکنے کیلیے انہوں نے (الطاف حسین نے) بہت بحث کے بعد ایم کیو ایم کی زیادہ انتہا پسند مرکزی کمیٹی کے اراکین کے سامنےگھٹنے ٹیک دیے تھے اور ایسے ’ردعمل‘ کی ’مجبوراً توثیق‘ کر دی تھی۔
تیس ستمبر کی شام اور پہلی اکتوبر کی صبح تک حیدرآباد اور کراچی میں چار سو سے زائد مرد، عورتیں اور بچے قتل اور سینکڑوں زخمی اور بےگھر ہوچکے تھے۔
شاہ فیصل کالونی نمبر ایک پر اپنے گھر پر حملے میں وائیسز گروپ کا فنکار منورپٹھان بھی مارا گیا اور اس کے دوسرے ساتھی فنکار شاھد کے ماموں اپنےکچھ اہل خانہ سمیت قتل ہوئے۔
حیدرآباد اور کراچی کا یہ قتل عام جنوبی ایشیا میں ایک وقت نسلی خونریزی کا بدترین واقعہ تھا– ایک منی ہولوکاسٹ تھا۔
BBC
♦
One Comment