رویش کمار
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا اجلاس ہر سال نیویارک میں منعقد ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں 74 واں جنرل اسمبلی سیشن اختتام پذیر ہوا۔ دنیا بھر کے اقوام کے نمائندہ قائدین کو اظہار خیال اور تقاریر کیلئے پانچ روزہ سیشن ہوا۔ مختلف ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم کے تقاریر سے کس قسم کی باتیں، فکر، آراء اُبھر آئیں، ان تقاریر میں کس حد تک مسائل کا حل پیش کیا گیا، یا کس حد تک تقریر کے ضابطے کی تکمیل ہوئی، تقاریر میں دیانتداری کس حد تک رہی۔ ان باتوں کا جائزہ لینے پر ہی ہم یو این جنرل اسمبلی میں تقاریر کے معنی و مفہوم کو ٹھیک طرح سمجھ پائیں گے۔
کشمیر کا معاملہ دیکھیں تو اس پر جنرل اسمبلی میں ایران یا یمن کی طرح غوروخوض ہوا اور نا کوئی تذکرہ کیا گیا۔جنرل اسمبلی میں تقاریر صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک ہوا کرتی ہیں۔ 27 ستمبر کو سکریٹری جنرل انٹونیو گوتیرس نے تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں ٹکراؤ یا تصادم کے کئی علاقے ہیں جن پر ہمیں فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن انھوں نے کشمیر کا تذکرہ نہیں کیا۔ شام، کوریا، سوڈان، افغانستان اور ونیزویلا کے نام تو لئے ہی جانے تھے۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو ظاہر طور پر بدل گئے ہیں لیکن حل نہیں ہوئے ہیں۔
وزیراعظم ہند نریندر مودی کی تقریر اور اُن کے پاکستانی ہم منصب عمران خان کی تقریر بھی ہوئی۔ اسی روز بنگلہ دیش اور نیپال کے قائدین کی تقاریر بھی ہوئیں۔ ظاہر ہے جنوبی ایشیا کے ممالک کے سربراہوں کی تقاریر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ کن شعبوں کے تعلق سے فکرمند ہیں۔ اُن کا نیا آئیڈیا کیا ہے اور کیا جرأت مندانہ اقدامات وہ کرنے والے ہیں؟
اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ارکان ہیں: چین، روس، برطانیہ، فرانس اور امریکہ۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے سربراہوں کی تقریروں میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگیوں کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔ وہ بس وسطی ایشیائی ممالک ایران، یمن اور سعودی عرب کی بات کرتے رہے۔ صدر فرانس کو امریکہ اور ایران کے تعلق سے فکرمند دیکھا گیا۔ یمن میں بحران کے خاتمہ کی باتیں بھی ہوئیں۔
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو کشمیر کے بارے میں شاید اتنے بیانات موصول ہوئے کہ وہ کچھ الجھن میں مبتلا ہوگئے، لیکن انھوں نے اپنی تقریر میں انڈیا، پاکستان یا کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
ایسا نہیں کہ دہشت گردی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ایران دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہے لیکن اس مسئلہ پر پاکستان کو گھیرنے کیلئے ہندوستان کی ڈپلومیسی کے تعلق سے وہ اپنی تقریر میں کوئی نشاندہی نہیں کرپائے۔ ایران کے حسن روحانی نے واضح طور پر بیان کیا کہ وہ اپنے دشمن ملک سے بات چیت نہیں کریں گے۔ ہم کسی دباؤ میں مذاکرات نہیں کریں گے۔ ایران کو معاشی دہشت گردی کا سامنا ہے اور وہ طاقتور طور پر نمٹ رہا ہے۔ امریکہ کے حلیف عراق نے ایران پر تنقید کی۔
فرانسیسی صدر ایمانیول میکرن اور جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے کہا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات ہونا چاہئے۔ عالمی قائدین میں جرأت مندی کا فقدان ہے۔ وہ خوداحتسابی کرتے ہوئے امن کو برقرار رکھیں۔ برازیلی صدر بولسینارو نے یہاں تک کہہ دیا کہ امیزان کا جنگل زمین کا شش نہیں ہے اور ان جنگلات کے جلنے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے کہا کہ نیوکلیر طاقتوں اور غیرنیوکلیر طاقتوں کے درمیان امتیاز ختم ہونا چاہئے۔ نیوکلیر طاقتوں پر مکمل امتناع عائد کردیا جائے یا پھر میدان ہر کسی کیلئے کھول دیا جائے۔ اردغان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہئے۔ ترکی واحد ملک ہے جس نے پاکستان کی حمایت کی ہے۔ اسرائیل نے ترکی کو دروغ گو قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ خود ترکی نے کردوں کا قتل عام کیا ہے۔ کولمبیائی صدر نے کہا کہ وہ وینزویلائی آپریشنس کے خلاف دستاویزات حوالے کریں گے۔ ہر کسی نے ایک دوسرے کے تشدد، جنگ اور نسل کشی کے تعلق سے بات کی ہے۔
وزیراعظم مودی نے جنرل اسمبلی میں 2014ء اور 2015ء کے بعد اب تیسری مرتبہ خطاب کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات لائی جائیں۔ 20 ویں صدی کی ضرورتوں کے مطابق تشکیل دہ آرگنائزیشنزکو 21 ویں صدی میں جوں کا توں برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ مودی نے اپنی تقریر میں نیپال، بھوٹان اور تیونس میں جمہوریت کی بحالی کا تذکرہ کیا۔ افریقا اور لاطین امریکا کی بھی بات کی گئی۔ پھر انھوں نے پاکستان کے تعلق سے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے سائے سے پاک پُرامن ماحول میں سنجیدہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ ایسا ماحول پیدا کرنے کیلئے پاکستان کو بھی مدد کرنا ہوگا۔
سنہ 2014ء کی تقریر میں مودی نے کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر میں سیلاب کے متاثرین کی مدد کررہے ہیں اور پاک مقبوضہ کشمیر میں بھی مدد کی پیشکش کئے ہیں۔ 2014ء اور 2019ء کے درمیان نہ ماحول پیدا ہوا اور نہ بات چیت ہوئی۔ اِس مرتبہ کی تقریر کا اقتباس ملاحظہ کیجئے جو میڈیا نے پیش کیا ہے :۔
وزیراعظم مودی کی تقریر صاف صفائی اور آیوشمان، آدھار، جن دھن یوجنا، نہ کہ کشمیر کے تذکرے کے ساتھ شروع ہوئی۔ انھوں نے کشمیر کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا؛ ایک مرتبہ استعمال والے پلاسٹک پر امتناع کی بات کہی؛ دیہات میں 1.25 لاکھ کیلومیٹر سڑکیں بنانے اور 15 کروڑ گھروں کو نل کے پانی سے جوڑنے کا تذکرہ کیا۔ انڈیا کو TB سے پاک بنانے کے مقصد کا بھی ذکر کیا۔ وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح انھوں نے بین الاقوامی سطح پر سولار الائنس تشکیل دیا ہے۔ آفت سماوی کیلئے عالمی اتحاد بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ بھی کہا کہ ماحولیاتی بحران کو حل کرنے میں انڈیا قائدانہ رول ادا کرے گا۔
وزیراعظم ہند کی تقریر کشمیر سے پاک رہی جبکہ دنیا بھلائی و بہبود کی بات کرتی رہی۔ انھوں نے پاکستان کا نام تک نہیں لیا لیکن پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہند اور آر ایس ایس کو جم کر نشانہ بنایا۔ مودی کے خلاف اقوام متحدہ فورم کا استعمال کیا گیا۔ گجرات فسادات سے لے کر سنگھ پریوار کے ایجنڈے تک سب کا ذکر کیا گیا۔ عمران نے کشمیر سے قبل آب و ہوا کے بحران، ٹیکس سے بچنے کی پناہ گاہوں کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے اور اسلاموفوبیا 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملے کے بعد بڑھ گیا ہے۔
مغرب کے بعض ممالک اور قائدین نے یہ اسلاموفوبیا پھیلایا ہے، جسے مسلم ممالک کے قائدین روکنے یا کوئی وضاحت کرنے میں ناکام ہوئے۔ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تمام برادریوں میں کٹرپسند عناصر ہوتے ہیں لیکن ان کا متعلقہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انھوں نے بتایا کہ افغانستان کیلئے مجاہد گروپ کو پاکستان نے مغرب کے فنڈز سے اُبھارا اور انھیں سوویت دہشت گرد کہا گیا جبکہ پاکستان انھیں مجاہدین آزادی قرار دیتا ہے۔ اب مغرب انھیں دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ عمران نے کہا کہ اقوام متحدہ کو کو اپنا مبصر بھیج کر دیکھنا چاہئے کہ پاکستان عسکری تنظیموں کے خلاف کیا کارروائی کررہا ہے۔ ہندوستان تو یقینا اس پر مطمئن نہیں ہوگا۔ عمران نے بتایا کہ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ہندوستان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن انھیں کچھ جواب نہیں ملا۔
اقوام متحدہ کے قائدین کی اپنی اپنی ساکھ ہے، اقتدار کا اپنا اپنا رنگ ہے۔ لیکن اس سیشن کی خاص بات یہ رہی کہ عوام کے نمائندہ قائدین نے آب و ہوا کے بحران کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ، چین اور ہندوستان دنیا کے تین بڑے کاربن آلودگی پھیلانے والے ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ جزیرہ ممالک میں زیادہ بے چینی ہے کیونکہ اگر سطح سمندر میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ ممالک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ 70 چھوٹے ملکوں نے زیادہ سخت وعدے کئے کہ وہ کاربن اخراج کو تیزی سے ختم کریں گے۔ ماحولیاتی بحران کے مسئلے پر انڈیا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، یو کے، یو ایس اے میں اس جنرل اسمبلی سیشن کے دوران مظاہرے اور احتجاج منعقد کئے گئے۔ ٭
رویش کمار، این ڈی ٹی وی میں اینکر پرسن ہیں
روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا