ایمل خٹک
مکافات عمل کو دیکھیں کہ
۔عمران خان نے بھی نواز شریف حکومت کے قیام کے بعد فوری بعد حکومت گرانے کی باتیں شروع کی تھی اور حکومت کے قیام کے ایک سال دو ماہ بعد مارچ کا اعلان کیا تھا
۔عمران نے بھی انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا، حکومت کی استعفی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا
۔اس وقت بھی چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کے حوالے سے اھم مذاکرات ہونے تھے
۔ اس وقت بھی ملک نازک صورتحال سے گزر رہاتھا اور محاذ آرائی سے دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچنے کی دھائی دی جارہی تھی
اب فرق یہ ہے کہ
۔اس وقت اسٹبلشمنٹ عمران کے دھرنے کی پشت پر اور آج مارچ کے حق میں نہیں۔
۔ اس وقت مارچ حکومت کی رٹ کو چیلنج کررہی تھی اب لگتا ہے مارچ بالواسطہ یا بلا واسطہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے پر منتج ہوگی۔
۔اس وقت حکومت کے ساتھ تمام سیاسی جماعتیں کھڑی تھی جبکہ آج سلیکٹیڈ سیاسی طور پر تنہا اور اکیلا ہے۔
۔اس وقت ملک کو اتنے سخت داخلی اور خارجی چیلنجزز کا سامنا نہیں تھا جتنا آج ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر دیرینہ دوست لاتعلق اور دوستی میں گرم جوشی کا فقدان ہے ۔
۔اس وقت عوام معاشی طور پر اتنی پریشان حال اور بے چین نہیں تھی جتنی آج ہے
۔اس وقت بھی پشتون جوان مارچ کے ہراوّل تھے اور عمران کی سحر میں پشتونوں نے مارچ میں حصہ لیا تھا جبکہ آج بھی لگتا ہے جے یو آئی کے زیر اثر پشتون نوجوان زیادہ تعداد میں اس سحر کو توڑنے کیلئے نکلیں گے ۔
مگر حقیقی آزادی اس وقت تک ممکن نہیں جب
۔ جب سماجی انصاف پر مبنی سیاسی نظام قائم نہ ہو
۔حقیقی جمہوریت قائم نہ ہو
۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور اس کو یقینی نہ بنایا گیا ہو
۔ مذھبی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ دینے والی ریاستی پالیسیوں اور بیانیوں کا خاتمہ نہ ہو
۔ملک میں اور خصوصا پشتون بیلٹ میں عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنوں کے دوران سنگین انسانی حقوق خلاف ورزیوں کی وجوھات اور عوامل جاننے اور روک تھام کیلئے ٹروتھ اور ری کنسیلیشن کمیشن کا قیام نہ ہو
۔ عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنوں کے دوران مالی اور جانی نقصانات اور شورش زدہ علاقوں کی بحالی کیلئے ترقیاتی پیکجز کا اعلان نہ ہو
۔پارلیمان کی بالادستی قائم نہ ہو
۔ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہ ہو
۔بلا امتیاز احتساب کا ایک شفاف اور قابل اعتماد میکنزم نہ ہو
۔علاقائی امن اور ترقی کیلئے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں نہ ہو