ارشد بٹ
پاکستان میں نام نہاد کرپشن جہاد کی کہوکھ سے آمریت، غیر جمہوری حاکمیت اور سیاسی کرپشن کے علاوہ کچھ پیدا نہیں ہوا۔ جنرل ضیا نے بھٹو کے خلاف ظلم کی داستانوں کا ڈنڈہورا پیٹا۔ ظلم کی داستانوں سے خونی آمریت کا عفریت برآمد ہوا۔ جنرل شاہی آمریت نے دروغ گوئی کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں پر کوڑوں کا عذاب نازل کردیا، جھوٹ اور مکاری کا اندھیرا پھیلتا گیا۔ تھانوں، جیلوں اور عقوبت خانوں میں سیاسی کارکنوں پر ٹارچر اور بہیمانہ تشدد روزمرہ کا معمول بنتا گیا۔ احتجاج کرنے پر سیاسی کارکنوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا رہا۔
پاکستانی تاریخ کے بدترین آمرضیا نے آمریت کے سایے میں وزیراعظم بھٹو کے قتل ناحق پر نام نہاد اسلامی نظام کی بنیاد رکھنی چاہی۔ آئین و قانون کی بالادستی، خود مختار عدلیہ، اظہار خیال کی آزادی، انسانی حقوق کی پاسداری، سب ظلم کی داستانوں، آمریت کے اندھیروں اور اسلامی نظام کے کھوکھلے نعروں میں دفن ہو گے۔
فوجی آمر نے جہاد کے نام پر اسلام آباد کو امریکی سی آئی اے کا دوسرا ہیڈکواٹر بنا کر ملک کو امریکی غلامی میں دے دیا۔ قبل ازیں جنرل ضیا کے پیش رو ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان اور بیوروکریٹ آمر غلام محمد اور سکندر مرزا، پاکستان کو امریکہ کے فوجی اور اقتصادی معاہدوں کی زنجیروں میں جکڑ کر قومی سلامتی، معاشی اور سیاسی خودمختاری کا سودا کر چکے تھے۔
ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے کارگل جہاد، کرپشن کے خلاف مہم اور روشن پاکستان کی ظلمتوں سے ق لیگ، پیٹریاٹ پی پی پی اور اسلامی سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کا جنم ہوا۔ مشرف حکومت میں سیاسی کرپشن اپنے آمرانہ رنگ بکھیرتی نظر آئی۔ کسی سے نہ ڈرنے والے کمانڈو مشرف نے دہشت گردی کے نام پر امریکی غلامی کا پٹہ قوم کے گلے کی زینت بنا دیا۔ اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لئے بے نظیر بھٹو کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہوئے اور عدلیہ کو محکوم بناتے بناتے اقتدار کا سنگھاسن کھو بیٹھے۔ بہادری کا تمغہ سینے پر سجائے غداری مقدمہ کے خوف زدہ سے وطن لوٹنے سے ڈرتے ہیں۔
اقتدار کے بھوکے جرنیلوں نے کرپشن ختم کرنے کے بہانے اور اقتدار پر غیر آئین اور ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کی خاطر ملکی خودمختاری کا سودا کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ معیشت کو سامراجی شکنجے میں جکڑنے، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے، انسانی اور جمہوری قدروں کی جڑیں اکھاڑنے کا مقدس مشن ان کی چیرہ دستوں کا محور رہا۔ غیر آئینی اور آمرانہ طرز حکمرانی نے پاکستان کو عالمی قوتوں کی معاشی غلامی، ملک کو پسماندگی، عوام کو غربت، بیماری اور جہالت کے تحفے دئے۔ آمرانہ ادوار کے درمیان وقفوں وفقوں سے آئینی اختیارات سے محروم سول جمہوری حکومتیں آمرانہ ادوار کی عوام دشمن پالیسیوں کو تبدیل کرنے میں یکسر ناکام رہیں۔
اقتدار پر دس دس سال ناجائز قابض رہنے والے تین فوجی جنرل ایوب خان، ضیا اور مشرف نے استحصالی اور کرپٹ نظام معیشت کو مستحکم کیا۔ معاشی طور پر کمزور غریب طبقوں کی خوشحالی، ٖغریب عوام کو باعزت روزگار، سستی تعلیم اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کسی نظام کی بنیاد نہ رکھ سکے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، پیروں اور مذہبی راہنماوں کی پشت پناہی سے اقتدرا کے مزے لوٹے رہے۔ محنت کرنے والے عوام پر ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل بڑھاتے رہے اور جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور استحصالی طبقوں پر نوازشوں کی بارش کرتے رہے۔
آج ایک بار پھر کرپشن جہاد کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ اب یہ ایک سیاسی حکومت کی زیرسر پرستی ہو رہا ہے۔ مگر طریقہ واردات وہی ڈکٹیٹروں والا۔ موجودہ حکومت کے دست و بازو، مشرف، زرداری اور نواز دور کے کرپٹ عناصر کے جھرمٹ میں وزیر اعظم عمران خان کرپشن جہاد کا للکارا مارتے رہتے ہیں۔ اب شک کی گنجائش نہیں رہی کہ کرپشن جہاد صرف دو سیاسی خاندانوں کے خلاف سیاسی انتقام کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حکم حاکم یہ کہ حکومت کا حامی کرپٹ نہیں ہوسکتا، بلکہ انہیں لوٹ مار اور کرپشن کی کھلی چھٹی مل چکی ہے۔
حکمران جماعت کے حامی صحافی بھی لکھنے پر مجبور کہ کرپشن میں گذشتہ ادوار سے کہیں زیادہ اور مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نے سرمایہ داروں اور افسر شاہی کو لوٹ مار کو کھلی چھٹی دے دی۔ مگر عمران خان کا نعرہ کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔،
صرف نواز اور زرداری پارٹیوں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گئیں۔ بلا امتیاز، شفاف اور غیر جانبدار احتساب کی حیثیت ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں رہ گئی۔ حکومت نے کرپشن جہاد کے شور میں آمروں کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی۔ پارلیمنٹ اور سول اداروں کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کے اصولوں پر تو وزیر آعظم عمران خان عرصہ ہوا سرنڈر کر چکے۔ عمران خان اور انکے حواریوں کو جمہوریت، جمہوری اقدار، عوام کی حاکمیت اور پارلیمنٹ میں جوابدہی جیسے الفاظ بے معنی اور بے کار لگتے ہیں۔
عمران خان کی سوچ کے مطابق وزارت عظمیٰ کا بچاو صرف عسکری پیج پر جمے رہنے سے ہی ممکن ہے۔ ابھی تک یہ پالیسی کامیاب نظر آ رہی ہے۔ مگر سیاسی عدم استحکام، شدید معاشی بحران اور متعدد گھمبیر مسائل کے شکار ملک میں یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ جب حکومت عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں ناکام رہے، روزگار کے نئے مواقعے فراہم کرنے کی بجائے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا رہے، مہنگائی عوام کا جینا دوبھر کر دے، طبی سہولتوں میں اضافہ کی بجائے کمی کر دی جائے، ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، اس کے علاوہ گورننس نام کی چیز عنقا ہو جائے۔ تو ناکام اور نااہل حکومت کی پشت پناہی سے مقتدرہ قوتیں ہاتھ کھنچنے میں تعمل سے کام نہیں لیتی۔
مقتدرہ کے لئے اپنے مفادات کا تحفظ اولین حیثیت رکھتا ہے۔ پہلے سے شدید عوامی تنقید کی زد میں اسٹبلشمنٹ اس حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے سے گریز کی پالیسی پر چل نکلے گی۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک زیرک سیاستدان ہونے کے ناطے مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر چڑھائی کرنے کے لئے صحیح وقت کا انتخاب کیا ہے۔ سب بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں نے مولانا کی کال پر لبیک کہہ دیا ہے۔ حکومت کے اتحادی چوہدری شجاعت بھی حکمرانوں کو یادہانی کرانے لگے کہ آپکو مولانا اور حاصل نزنجو کے والد کے مقام کیا معلوم۔
اپوزیشن کی تحریک کے نتائج پر قبل از وقت تبصرہ یا تجزیہ کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ اتنا اہم نہیں کہ اپوزیشن کی تحریک کے نتیجہ میں وزیر اعظم عمران خان گھر جاتے ہیں یا نہیں ۔ مگر یہ کہنا ممکن ہے کہ اس تحریک کے نتیجہ میں حکومت کو موجودہ طورطریقوں اور پالیسیوں پر نہیں چلایا جا سکے گا۔
آزادی مارچ پر غور کے لئے وزیر اعظم کے بار بار اجلاس، مذاکراتی کمیٹی کا قیام، وزیر اعظم اور وزرا کے الٹے سیدھے بیانات سے اقتدرا کے ایوانوں میں کھلبلی، گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت اپنے پشت پناہوں کے دباو کے نتیجہ میں پسپائی اختیار کرتے ہوئے مولانا سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
مولانا اور اپوزیشن لیڈروں کے دعوں کے مطابق اگر آزادی مارچ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے، تو حکومت شکست و ریخت سے دوچار ہو سکتی ہے۔مگرحکومت کی پشت پناہ اسٹبلشمنٹ کے لئے بدلتے حالات کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی تحریکوں کو ریاستی طاقت سے کچل کر آمرانہ حکومت ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہیں لا سکتی۔
اگر مجوزہ تحریک کو ریاستی تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی تو اس کے سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی سطح پر شدید نقصانات ہونے کے امکانات ہیں۔ حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ موجودہ سسٹم کے کارپردازوں کو اس سسٹم کے چلنے کے امکانات دن بدن کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اگر ملک کو ترقی، خوشحالی، معاشی اور سیاسی استحکام کی طرف بڑھانا ہے، تو آئین اور قانون کے مطابق جمہوری نظام کو چلانا ہو گا، سیاسی جماعتوں کے آئینی اور قانونی کردار کو تسلیم کرنا ہو گا۔ ملک پر سال ہا سال آمریت مسلط کرنے کے نتائج کس قدر بھیانک نکلتے رہے۔ یہ پاکستانی عوام اور دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں۔
♣