رزاق کھٹی
لاڑکانہ کی پی ایس گیارہ کی نشست پر سترہ اکتوبر کو پیپلزپارٹی شکست کھاچکی ہے، جس کے بعد پارٹی لیڈران کی جانب سے آنے والے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اس شکست پر ایک ماتم بپا ہے، جب کہ دوسری جانب اسلام آباد کے حکمران بھی جی ڈی اے کی کامیابی پر جشن منارہے ہیں، اور پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔
لاڑکانہ کی صوبائی نشست پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے پولیٹیکل سیکریٹری جمیل سومرو کو گرانڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) کے معظم عباسی نے شکست دے دی ہے، معظم عباسی منور عباسی کے بیٹے اور بیگم اشرف عباسی کے پوتے ہیں، اس خاندان کا پیپلزپارٹی سے پانچ دہائیوں کا تعلق تھا، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے جب آصف زراداری نے پارٹی کی کمان سنبھالی تو یہ تعلق ختم ہوگیا، معظم عباسی ڈاکٹر صفدر عباسی کے بھتیجے ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان ان کی چچی ہیں۔
ناہید خان محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی تک ساتھ رہیں، اور بہت سارے پارٹی اور ذاتی معاملات وہ خود دیکھتی تھیں، پارٹی میں کم ہی ایسے رہنما ہونگے ، جو ان کے جارحانہ رویئے کا شکار نہیں ہوئے ہونگے، کیونکہ ناہید خان ہی محترمہ بے نظیربھٹو تک پہنچنے کا واحد ذریعہ تھیں ، یہی سبب تھا کہ پارٹی کے اہم لوگ ناہید خان کے حقارت آمیر رویے کے باوجود بھی خاموش رہنے پر اکتفا کرتے تھے۔
محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت تبدیل ہوئی تو اس قیادت نے لوگ بھی اپنی مرضی کے رکھے۔بلاول بھٹو زرداری نے جب باقاعدہ پارٹی کے معاملات سنبھالے تو جمیل سومرو ان کے پولیٹیکل سیکریٹری بن گئے، ان صاحب کا رویہ پارٹی کے لوگوں کے ساتھ ناہید خان سے زیادہ مختلف نہیں تھا، لیکن اس بار تو ان پر یہ بھی الزامات لگے کہ وہ بغیر کسی انسینٹو کے پارٹی قیادت سے ملاقات کرانے کا بندوبست نہیں کرواتے تھے، کیونکہ یہ صاحب ہی بلاول بھٹو کے ساتھ زیادہ قریب تھے، اس لیے یہ ہی واحد ذریعہ تھے، جن کی معرفت بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ممکن ہوسکتی تھی۔
لاڑکانہ میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں بلاول بھٹو نے اپنے پولیٹیکل سیکرٹری کو امیدوار نامزد کیا اور اس کی انتخابی مہم میں ذاتی دلچسپی لی، ایک بڑی انتخابی ریلی کی قیادت کی، سندھ حکومت کی پوری مشینری، وزرا تک کو اس انتخاب میں ذمہ داریاں دی گئیں، اس کے باوجود پیپلزپارٹی جے ڈی اے کے ہاتھوں شکست کھاگئی۔
سندھ میں چند عوامل ایسے ہیں جن پر عام سے لیکر خواص تک سب یک آواز ہیں، جن میں سندھ کی وحدت، کالاباغ ڈیم ، سندھی زبان اور اس کی ثقافت قابل ذکر ہیں، یہ ہی سبب ہے کہ عام سندھی کی کمزوری کا جاگیرداروں اور سیاسی اشرافیہ نے خوب فائدہ اٹھایا ہے، اور طبقاتی تضاد کی بحث بھی ختم ہوچکی ہے۔
حال ہی میں جب ایم کیو ایم کی جانب سے قومی اسمبلی میں صوبوں کی تقسیم میں صوبائی اسمبلی کا اختیار ختم کرنے کا بل پیش کیا گیا اور جے ڈی اے ارکان اس پر خاموش رہے تو پیپلزپارٹی نے اس پر نہ صرف شدید تنقید کی بلکہ لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں اسے ایک سلوگن کے طور پر استعمال بھی کیا گیا۔
اس کے باجود بھی اگر جمیل سومرو کو شکست ہوگئی ہے تو پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ان عوامل پر غور کرنا ہوگا، جو اس شکست کا سبب بنے ہیں، کیونکہ اس بار بلاول بھٹو اس نشست پر کامیابی کیلئے انتہائی جذباتی تھے۔
گذشتہ بارہ برسوں سے پیپلزپارٹی سندھ میں مکمل بااختیار حکمران ہے، لیکن ایک بھی ایسا ضلعی ہیڈ کوارٹر نہیں ہے، جسے مثالی بناکر وہ ملک کے دیگر صوبوں کو ماڈل کے طور پر دکھاسکے، سندھ میں ایک طرف نئی کرپٹ الیٹ پیدا کی گئی تو دوسری طرف بلدیاتی اداروں کو مکمل طور پر اپنے زیردست اور کمزور بنادیا گیا، آبپاشی سسٹم کو تہس نہس کرکے لوگوں کے معاشی ذریعے پر ڈاکہ ڈالا گیا، لاڑکانہ کو کتنی ترقی دی گئی، اس بارے میں لاڑکانہ کے لوگ بہتر بتا سکتے ہیں۔
پارٹی کے پرانے کارکنوں کو دیوار سے لگاکر سیلفیئسٹ کو آگے آنے کا موقع دیا گیا، سیلفیئسٹ کا کام درباری سے کم نہیں ہوتا، نتیجے میں عوامی مسائل پر بات کرنے والے جیالے پیچھے دھکیل دیئے گئے ۔جب وقت آیا تو عام آدمی نے اپنا انتقام لیا، لاڑکانہ سے پیپلزپارٹی کے پرانے جیالے جو باتیں بتارہے ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ جمیل سومرو جیسے لوگوں کے ہوتے ہوئے پیپلزپارٹی کو لاڑکانہ جیسے شہروں میں دشمن کی ضرورت نہیں۔
سندھ میں شروع سے پیپلزپارٹی کو اپنی مضبوط جڑوں اور کمزور حریفوں کے باعث کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن مسلسل بارہ سالہ حکومت کی خراب کارکردگی نے تمام وسائل ہونے کے باوجود کمزور کردیا ہے، ضمنی انتخاب میں سب نے اپنا حصہ ڈالا، خصوصا وہ جنہیں دھتکارا گیا، وہ عام آدمی ہو یا پارٹی کا عہدیدار، انہوں نے ووٹ کے ذریعے بدلا لیا ہے، اب وہ دور گیا کہ جب یہ غرور ہوتا تھا کہ پارٹی کسی کھمبے پر بھی اگر اپنا ٹکٹ چپکا دے تو وہ بھی جیت جائے گا، عام آدمی کی چیخیں بتاتی ہیں کہ لاڑکانہ کے ساتھ کیا ہوا ہے!۔
♦