برطانوی شاہی جوڑا شہزدہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن اپنا پانچ روزہ پاکستان کا سرکاری دورہ مکمل کرکے واپس برطانیہ لوٹ چکے ہیں۔۔ پیچھے وہ بے شمار یادیں اور باتیں چھوڑ گئے ہیں۔۔ برطانوی شاہی جوڑے کا غریب مملکت خداد کی طرف سے شاہی پروٹوکول دیا گیا۔۔ پانچ روزہ دورے میں شہزدہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن نے لاہور، اسلام آباد، وادی کلاش اور لاہوروغیرہ کا دورہ کیا۔۔ شاہی جوڑے نے لوگوں میں گھل مل کر پاکستانی قوم کو حیران کردیا۔
قومی میڈیا جہاں وہ سندھ و بلوچستان کے مسنگ پرسن اور پی ٹی ایم کی خبر چلانے کے قابل نہیں سمجھتا وہیں اس نے برطانوی شاہی جوڑے کی ہر سرگرمی کو مس نہ ہونے دیا۔۔ چاہے جوڑے نے شلوار قمیض پہن رکھا ہو، رکشہ میں سفر کیا ہو یا پھر کرکٹ کھیلی ہو۔۔۔۔ ہر حرکت کو تمام بلیٹنز کی زینت بنایا۔۔۔ شاہی جوڑا تو برطانیہ جاچکا لیکن ان کے تاج برطانیہ کے برصغیر پر قبضے اور مظالم کے زخم اب بھی ہرے ہیں۔۔ یہ یا اس سے پہلے آنے والے دیگر شاہی افراد کے دوروں کے دوران کسی نے یہ جرات کی کہ ان کو یاد دلائیں کہ تاج برطانیہ نے موجودہ پاکستان، بنگلادیش اور بھارت پر کیا کیا ظلم ڈھائے۔۔۔ تاکہ ان کو اپنے پرکھوں کے اعمال پر ندامت ہو۔۔؟ کبھی نہیں !!۔۔ ایسا شاید ہوگا بھی نہیں کیونکہ یہ قوم غلام ابن غلام ہے۔
برطانوی دور حکومت میں اگر ہم صرف معاشی لوٹ کھسوٹ کی بات کریں تو ایک رپورٹ کے مطابق صرف 173 سالوں کے دوران برطانوی حکومت نے برصغیر سے 43 ٹریلین ڈالرزکے وسائل لوٹے۔۔ فقط کوہ نور ہیرے کی قیمت 200 ملین امریکی ڈالر بنتی ہے۔۔ بھارتی صحافی منہاز مرچنٹ کے مطابق صرف1757 سے1947 تک 30 کھرب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا۔ امریکی تاریخ نویس میتھیو وائٹ کے مطابق انگریزوں کے دور میں دو کروڑ 66 لاکھ لوگ قحط کا شکار ہوئے۔۔ ہندستان میں دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
سنہ 1843 تک انگریز سندھ اور پنجاب کے علاوہ پورے برصغیر پر قابض ہوچکا تھا۔ سندھ اور پنجاب مفتوح ہونے سے پہلے ہی کئی معاہدوں میں انگریزوں کے ہاتھوں جکڑے جاچکے تھے۔ پھر بھی ان پر قبضہ کیا گیا۔ اگست 1618 میں برطانوی سفیر سر ٹامس رو نے مغل شہنشاہ نور الدین محمد جہانگیر کے ولی عہد شاہ جہاں سے گڑگڑا کرایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے کاروبار کرنے کا پروانہ حاصل کیا تھا، جس کے تحت گجرات کے ساحلی شہر سورت پر پہلی کوٹھی قائم کی۔۔
سترہ برس بعد 1635 میں دوسری تجارتی کوٹھی ٹھٹھہ میں قائم کی گئی۔۔ جسے بعد میں 27 برس بعد بند کردیا گیا تھا۔۔ ایسٹ اینڈیا کمپنی نے اگلے 123 سال بھارت کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر قبضہ کرنے میں گذارے اور یوں ایک بڑی ایمپائر بنالی۔۔ ( یہ اب تک کی واحد ملٹی نیشنل کمپنی تھی جس کی اپنی فوج بھی تھی۔۔ ایسا عروج آج تک پھر کسی ملٹی نیشنل کمپنی کو نہ مل سکا۔ ) انگریز 22 دسمبر 1758 کو دوبارہ سندھ کی طرف متوجہ ہوئے اورکلہوڑا دور حکومت میں میاں غلام شاہ کلہوڑو سے ایک معاہدے کے بعد موجودہ ضلع سجاول کے علاقے شاہ بندر میں کوٹھی قائم کی۔۔ اس کے ساتھ ہی انگریز سامراج اگلے 85 برس تک سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکمرانوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے گھیرتا رہا۔
سندھ کو مفتوح بنانے میں ایک انگریز جاسوس ڈاکٹر جیمس برنس نے تاج برطانیہ کے لئے بڑی آسانی پیداکردی۔۔ (یہ جیمس برنس وہی ہیں جن کے نام سے کراچی کی مشہور سڑک برنس روڈ ہے۔۔) جیمس برنس نے تالپور حکمرانوں کے علاج کے دوران حیدرآباد قلعے کے اندر کے حالات، اسلحہ سمیت شب و روز کے مشاہدات پر ایک مفصل کتاب میروں کا دربار لکھی۔ یہ کتاب 1831 کو انگلینڈ میں شایع ہوئی۔۔ تالپور جنگجوؤں نے اپنے مرشد کلہوڑا حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی۔۔1782 میں ضلع نوشہروفیروزمیں ہالانی کے مقام پر ہونے والی جنگ میں کلہوڑا خاندان کو شکست ہوئی۔
تالپوروں کے برسراقتدار آتے آتے سندھ میں انگریزوں کی مداخلت بھی بڑھ چکی تھی۔ انگریزوں نے تالپور حکمرانوں کے ساتھ جتنے بھی معاہدے کئے وہ دراصل انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی سازش تھی، جسے وہ سمجھ ہی نہ پائے۔ ان معاہدوں میں ایک تھا کہ انگریزوں کے ساتھ ہر صورت تعاون جاری رکھا جائے گا۔ دوسرا معاہدہ سب سے زیادہ خطرناک تھا، اس معاہدہ میں انگریزوں کو کراچی میں اپنی تین ہزار فوج تعینات کرنے کی اجازت مل گئی، جس کے بدلے تالپورحکومت کو تین لاکھ روپے انگریزوں کو دینا قرار پایا۔
ان سب کارستانیوں کی باوجود چارلس نیپئر مشترکہ بھارت کے کئی رجمنٹس پر مشتمل فوج لے کر سندھ آگئے۔۔ اور حیدرآباد کے قلعے پر قبضہ کرلیا۔ (اس وقت سندھ تین حصوں میں تقسیم تھا، حیدرآباد، میرپورخاص اور خیرپور میرس، ان ریاستوں پر مختلف تالپور سردار حکومت کرتے تھے۔) میرپورخاص کے میر شیر محمد تالپور نے چارلس نیپئر کو پیغام بھجوایا کہ اگر وہ قلعہ خالی کردیں تو ان کی جان بخشی جائے گی۔۔ مگر چارلس نیپئر نے انکار کردیا۔ جس پرمیرپورخاص اور حیدرآباد کی تالپور فوج نے چھوٹے چھوٹے حملے شروع کردئے جس میں انگریز فوج کو نقصان اٹھانا پڑا۔
تالپور فوج کے پاس روائتی اسلحہ تھا جبکہ انگریز فوج جدید اسلحے سے لیس تھی۔۔ چھوٹے چھوٹے حملوں کے بعد سترہ فروری 1843 کو حیدرآباد کے قریب میانی کے میدان پر تالپور اور انگریز افواج کے درمیان جنگ ہوئی۔ تالپور فوج کی قیادت میر نصیرخان تالپور اور چارلس نیپئر انگریز فوج کے سپہ سالار تھے۔ دوسری جنگ 35 دن بعد میانی کے قریب دبی کے میدان پر لڑی گئی۔ اس جنگ میں انگریزفوج کی قیادت جیمز آئٹرام اور تالپور فوج کی طرف سے ہوش محمد شیدی سپہ سالار تھے۔ دونوں جنگوں میں روائتی اسلحے پر جدید اسلحے کی جیت ہوئی اور یوں تالپور حکومت کا سورج محض 60 برس میں غروب ہوگیا۔
دونوں جنگوں میں حصہ لینے والی انگریز فوج میں بھارت کے مختلف ریجمنٹس کے فوجی شامل تھے۔۔ میانی کے میدان پر انگریز حکومت کے لگائے گئے یادگار میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔۔ ان ریجمنٹس میں بنگال، بمبئی اور گورکھا ریجمنٹس سمیت دیگر شامل ہیں۔ انگریزوں کے اس یادگار پر اپنے فوجیوں کو کامریڈ لکھا گیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ انگریز سامراج نے بالشیوک انقلاب سے قبل ہی کامریڈ لفظ کا پرچار شروع کردیا تھا۔۔ شاہی جوڑا تو چلا گیا کسی نے کوئی شکایت نہ کی لیکن سندھ کی وہ زمین جہاں انگریزوں سے سندھ کے سپوتوں نے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا۔ وہاں
آج گلاب اور دیگر پھولوں کے باغات ہیں۔۔ اور یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ شہدا کے خون کی وجہ سے یہ مٹی زرخیز ہے۔۔
♠