بھارتی حکومت نے سیاچین گلیشیئرکو سیاحوں کے لیے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ بیس ہزار فٹ کی اونچائی پر واقع سیاچن گلیشیئر پاکستان اور بھارت کے درمیان دنیا کا یہ بلند ترین اور سرد ترین میدان جنگ ہے۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے چین کے ساتھ ملحق حقیقی کنٹرول لائن کے قریب شیوک ندی پر تعمیر ہونے والے اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہم پل ‘کرنل چیوانگ رینچین پل‘ کا افتتاح کرنے کے بعد کہا، ”سیاچن گلیشیئر کو اب سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ سیاچن کے بیس کیمپ (12300فٹ کی بلندی) سے کمار پوسٹ (15600فٹ کی بلندی) کے پورے علاقے کو سیاحت کے غرض سے کھول دیا گیا ہے۔
ا س سے لداخ میں سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا اور عام لوگوں کو یہ اندازہ بھی ہوسکے گا کہ بھارتی فوج کے جوان اور انجینیئر انتہائی خراب موسم اور نامساعد حالات کے باوجود ملک کی کس طرح حفاظت کرتے ہیں۔“
سیاچن گلیشیئر کو سیاحت کے لیے کھولنے کا اعلان مودی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے ریاست کومرکز کے زیر انتظام دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے مطابق، ”کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ اور اس کا داخلی معاملہ ہے اور چینی صدر شی جن پنگ نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ حالیہ ملاقات کے دوران کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔” راج ناتھ سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ لداخ کو علیحد ہ یونین ٹریٹوری بنانے سے اس علاقے کے لوگوں کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا ہے اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح لداخ بھی اب سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم مقام بن گیا ہے۔ سیاحت سے نہ صرف آمدنی ہوگی بلکہ مقامی لوگوں کے لیے ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
سیاچن انتہائی مشکل ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ علاقہ سال بھر برف سے ڈھکا رہتا ہے اور درجہ حرارت منفی 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔ سیاچن پر بھارتی فوج کی چوکیاں 14 ہزار فٹ سے لے کر 24 ہزار فٹ تک کی بلندی پر واقع ہیں۔ بھارت کو یہاں اپنے فوجیوں کو رکھنے پر یومیہ چھ کروڑ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ موسم یہاں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت اور پاکستان کے تقریباً ڈھائی ہزار جوان یہاں دشمن کی گولیوں کے بجائے موسم کی مار سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سیاچن گلیشیئر کو سیاحت کے لیے کھولنے کے اصل مقصد اسٹریٹیجک پہل ہے کیوں کہ سیاحت کو کسی علاقے پر اپنی دعویداری ثابت کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان نے 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں ایسا کرنے کی کوشش کی تھی جب اس نے اس گلیشیئر پر اپنے علاقے سے مسلسل کوہ پیمائی کی اجازت دی تھی۔ سیاچن گلیشیئر کی سرحدیں پاکستان کے علاوہ چین سے بھی ملتی ہیں۔ اس لیے یہاں پر خاصی چوکسی برتی جاتی ہے۔ 1984ء میں پاکستانی فوج نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بھارتی آرمی نے آپریشن میگھ دوت کے نام سے بر وقت کارروائی کر کے سیاچن کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کی فوج اپنی اپنی پوزیشن پر موجود ہیں۔ اس لیے سیاچن کو سیاحت کے لیے کھولنے کے بھارت کے فیصلے پر پاکستان کا معترض ہونا یقینی ہے۔
یہاں یہ سوال پوچھا جا رہا کہ حکومت نے سیاچن کو سیاحت کے لیے اجازت دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ دراصل بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے چند ہفتہ قبل ایک سیمینار میں کہا تھا کہ سیاچن کو سیاحت کے لیے کھولنے سے عام لوگوں کو یہ معلوم ہوسکے گا کہ بھارتی فوج کتنے مشکل حالات میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتی ہے۔ اس سے قومی اتحاد کو بھی فروغ ملے گا۔
بہرحال سیاچن گلیشیئر کو سیاحت کے لیے کھولنے پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی وار زون میں آرمی اور سویلین میں میل جول مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی اور سکیورٹی جیسے دیگر مسائل بھی ہیں۔ یوں بھی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے وہاں کا گلیشیئر پگھل رہا ہے اور عام سیاحوں کی آمد کے بعد صورت حال مزید خراب ہوجائے گی۔ بھارتی آرمی کی شمالی کمان کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بی ایس جائسوال کے مطابق، ”ماحولیات سے متعلق مسائل تشویش کا سبب ہوں گے۔ سیاحت اور دیگر سرگرمیوں سے کچرے میں اضافہ ہوگا۔ اس سے گلیشیئر کو نقصان پہنچے گا۔ فوج کی موجودگی کی وجہ سے یہاں پہلے ہی کافی کچرا ہے اور ہر روز کچرے میں ایک ہزار کلوگرام کا اضافہ ہورہا ہے۔“۔
یوں تو 2007ء سے 2016ء تک بھارت نے سیاچن گلیشیئر پر سویلین کو کچھ وقت کے لیے آنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن انہیں آرمی سے باضابطہ اجازت لینا پڑتی تھی اور ان کی طبی اور دیگر جانچ بھی کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری رہے گا اور سیاح فوج کی مدد سے ہی وہاں جاسکیں گے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ خوش فہمی ہے کہ وہاں اسکیئنگ کا لطف اٹھاسکے گا تو یہ خام خیالی ہے البتہ وہاں سیلفی ضرور لے سکیں گے۔
ایک آرمی افسر کا کہنا تھا کہ سیاچن بیس کیمپ سے کمار پوسٹ تک کی دوری 56 کلومیٹر ہے اور یہ دوری طے کرنے میں تقریباً چار دن لگتے ہیں۔ سویلین وہاں آرمی کی مدد سے ہی ٹریکنگ کرسکیں گے۔ یہ سلسلہ اگلے سال مئی سے شروع ہوگا اور اس کے لیے طریقہ کار طے کیا جارہا ہے۔
DW