جہانزیب کاکڑ
انسانی زندگی، سماج اور فکر ایسے حیرت انگیز منشور کی مانند ہے جو اپنے کسی ایک رنگ کے غالب آنے کا بدلہ کسی دوسری رنگ کے غالب کروانے کی صورت میں لے ہی لیتا ہے۔ رات دن، بہار وخزاں، جیت ہار، عروج وزوال کا تمام سلسلہ اگر ایک طرف دو انتہاؤں کے درمیان عبوری حالتوں کی تشکیل کا سفر ہے تودوسری طرف یہ تمام تر سفر لزومیت اور علت ومعلول کے رشتوں کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے ۔
تاریخی طور پر اگراحساس کم مائیگی کے مداوا کے لیے انسان نے مختلف اقسام کی مابعدلطبیعی ہستیوں کو تراش لیا تو دوسری طرف تجربے، عقل اور سائنس کی کلید پاتے ہی ان ماورائی ہستیوں کو راندہ درگاہ بھی کر لیا۔ اگر ایک طرف جبلت کے ہاتھوں مغلوب ہوکر تاریخی قوتوں کو برباد وتاراج کرتا رہا تو دوسری طرف منہ زور جبلتوں کو لگام دیتے ہوئے تہذیب وتمدن کے خوبصورت مجسمے کو بھی تراش لایا۔
اگر ایک طرف وجدان،ماورایت اور عینیت پر مبنی نظریات کو رواج دیتا رہا تو اس کے مقابل مادیت، تجربیت، اور سائنسی عقلیت پر مبنی فکر کو بھی پروان چڑھاتا رہا۔ لیکن ہر رجحان کے غالب آنے پر یوں لگا جیسے دیگر رجحانات کا وقت پورا ہو چُکا ہو۔ مگر پھر ایک داخلی جذبہٕ انتقام کے تحت ہر دبایا ہوا رجحان پوری شدّت کے ساتھ ایک مختلف صورت میں منظرٍ عام پر اُبھرتا رہا اور اپنے آپ کو زیادہ شد ومد کے ساتھ منوا کر ہی رہا۔
شہرِ آیونا کے ایک شہری طالیس۔”٦٢٤، ٥٥٠“ نے اگر جرات کرکے کہہ دیا کہ” کائنات پانی سے بنی ہے،ٗ اہلِ کلیسا کے صدیوں پر محیط اوہام و خُرافات کا پردہ چاک کرکے کائنات کے متعلق تحقیقی نقطہٕ نظر پیش کیا تو دوسری طرف افلاطون”٤٢٧ ق م“ کی سکونی مابعدالطبیعات نے کائنات کو عالمِ امثال کی نقل قرار دیکر اسکی طرف بے توجہی اور بے اعتنائی کے رویے کو فروغ دیا۔اگر ایک طرف فلسفے کی مخالفت کرکے غزالی نے اہلِ مشرق کو فکری تنزل کی اتھاہ گہرایوں میں پہنچا دیا تو دوسری طرف فکری نشاطِ ثانیہ کا باعث بننے والے ابنِ رشد نے فکر کی وہ شمع روشن کی جس کی لَو سے اب تک اہلِ یورپ مستفید ہورہے ہیں۔
اگر روشن خیالی پروجیکٹ نے مادیت پر مبنی عقلیت اور انسانی مرکزیت پر مبنی عقلیت کی ترویج کا رستہ ہموار کیاجسکا نتیجہ انقلابِ فرانس، فرد کی آزادی، سرمایہ داری نظام اور آزاد منڈی کی معیشت کی صورت میں برآمد ہوا ۔مگر چونکہ سرمایہ داری نظام کا فرد کی آزادی اور تجارت کی آزادی سے مراد مخصوص کاروباری فرد اور اُسکی تجارتی سرگرمی کی آزادی سے تھا جس میں عوام الناس کی حقیقی معاشی وسیاسی آزادی کو کوئی دخل حاصل نہیں تھا۔ اِس لیے اس کے خلاف ردِعمل کے طور پرخیالی (یوٹوپین) اور بعد ازاں سائنسی سوشلزم کے نظریات سامنےآئے۔ تاکہ انسانی مساوات اورمنصوبہ بندی پر مبنی ایک معاشی وسیاسی نظام کوتشکیل دیاجاسکے
اگر ایک طرف ہیگل نے خام جدلیاتی پروجیکٹ اور فیور باخ نے جامد مادیت کا تصور پیش کیا تو دوسری طرف کارل مارکس نے تاریخ کے مادی وجدلی جوھر کو محفوظ کرتے ہوئے تاریخی و جدلیاتی مادیت کے نظریے کو مرتب کیا۔اگر ایک طرف تاریخی سماجی جبر روا رکھنے کے لیے سرمایہ داری نے ریاست کا مرئی و غیر مرئی جال بچھائے رکھا تو دوسری طرف سوشلزم نے بھی سرمایہ دارانہ ریاست کے مقابلے میں محنت کی ریاست کی تعمیر کا متبادل پیش کیا اورسرمایہ داری کے مظالم کے خلاف تاریخی، نظریاتی اور جُغرافیائی موقع پاتے ہی عوام نے بالشویکوں کی رہنمائی میں اکتوبر١٩١٧ میں روس میں انقلاب برپا کر دیا۔
اِس انقلاب سے دُنیا ایک ایسے عبوری سیاسی، سماجی اور معاشی توازن کیطرف بڑھنے لگی جس میں اگر ایک طرف سوشلسٹ ممالک عوام کی معیارِ زندگی بلند مگر سیاسی آزادی پر قدغنیں عائد کر رہے تھے تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ ریاستوں نے بھی سوشلزم کے خوف سے اِصلاحات مگر مختلف اقسام کے فاشسٹی اور آمریتی رجحانات کو مسلط کیے رکھا۔سرد جنگ کی اِس تمام تر پُر تنائو توازن کا نتیجہ بالآخر سوویت یونین کے انہدام اور سرمایہ داری کی فتح کی صورت میں نکلا، اور ایک بار پھر سیاسی ومعاشی دُنیا یکطرفگی اور عدم توازن کی کیفیت میں داخل ہو گئی۔
غرض یہ کہ انسانی زندگی فکر اور سماج کا ہر رنگ ایک انتہا سے دوسری انتہا اور پھر توازن کی عبوری حالتوں کی تشکیل کا سفر ہے۔جب ہم اپنے اردگرد بکھری اشیا، مظاہر اور حقائق پر نظر ڈالتے ہیں توہمیں ہر شے اور مظہر، دوسری اشیا اور حقائق سے علت ومعلول کے متنوع رشتوں سے منسلک اور متاثر نظر آتا ہے اور یہ تمام تر وابستگی اور اثریت ہمیں معروضی قانون کی کششِ ثقل کے دائرے کے اندر وقوع پذیر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ معروضی قانون اور علت ومعلول کے رشتوں کے بغیربھی ان حالتوں کو برتنے اور ان سے نمٹنے کا کوئی آسان اور فوری حل ممکن بھی ہے کہ نہیں؟اس سوال کا جواب، دو فکری دھارے، دینے کی جسارت کرتے ہیں۔ ایک وہ سہل پسند فکری دھارا جو کسی نہ کسی صورت میں معروضی قانون, تاریخی لزومیت ،ارتقا اور وجودٍ ریاست کے جواز کا منکر ہے۔ جس کا فکری اظہار باطنی فرار، اخلاقی فلسفوں، اور نراجی و رومانوی طرزِ فکر میں ہوتا ہے۔ جس کا زمینی حقائق کو سمجھنے اور پھر اسے بدلنے سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
دوسرا نقطہ نظر جو نہ صرف معروضی قانون کو تسلیم کرتا ہے بلکہ انتہاؤں سے توازن تک کے سفر کو سائنسی اور معروضی انداز میں سمجھتے ہوئے اس سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے ۔یہ ہر شے اور سلسلہٕ عمل کو معروضی قانون کے تابع اور اس کی ضروری پیداوار سمجھتا ہے۔ اس میں فطرت کے جبر، انسان کے اختیار، ارتقا، جوازِ ریاست اور انسانی مساوات سب کو ٹھیک ٹھیک جگہ دی جاتی ہے۔
یہی وہ واحد حقیقی، سائنسی اور متوازن نقطہ نظر ہے جو چیزوں اور عوامل کو ان کی اصل فطرت میں دیکھتے اور سمجھتے ہوئے انہیں بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔
♦