چین میں ايغور مسلم آبادی کے قبرستانوں کی مسماری جاری

چین کے افراتفری کے شکار صوبے سنکیانگ میں ایغور آبادی کو کئی پہلوؤں سے حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ سنکیانگ کی ایغور آبادی مسلمان ہے اور اس صوبے میں علیحدگی پسندی کی تحریک بھی جاری ہے۔اویغور نسلی اعتبار سے وسط ایشیائی مسلمان ہیں اور چین کے صوبہ سنکیانگ کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔

اویغور نسلی اعتبار سے وسط ایشیائی مسلمان ہیں۔ یہ چین کے سنکیانگ خطے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں جبکہ یہاں 40 فیصد ہن نسل کے چینی باشندے بھی آباد ہیں۔ چین نے 1949 میں مختصر عرصے کے لیے قائم ہونے والی ریاست مشرقی ترکستان کو ختم کرتے ہوئے یہاں اپنا کنٹرول دوبارہ قائم کر لیا تھا۔

تب سے اب تک یہاں چین کے دیگر علاقوں سے ہن چینی بڑی تعداد میں آباد ہوئے ہیں اور اویغور برادری کو خدشہ ہے کہ اس سے ان کی ثقافت ختم ہونے جا رہی ہے۔چین میں سنکیانگ کو سرکاری طور پر جنوبی خطے تبت کی طرح خودمختار حیثیت حاصل ہے۔

کئی سرگرم ایغور کارکنوں کے مطابق چینی حکومت نے اب اس مسلم آبادی کے قبرستانوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ قبروں کے انہدام کے بعد وہاں دفن کیے گئے مردوں کی ہڈیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ کئی اہم شخصیات کے مزارات بھی گرا دیے گئے ہیں۔ ایغور آبادی کے مطابق چینی حکومت اُن کی ثقافت کو مٹانے کے ساتھ ساتھ ان کے آباء کی نشانیوں کو ملیامیٹ کرنے کی بھی کوشش میں ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کئی قبروں کو انتہائی لاپرواہی کے ساتھ ختم کیا گیا ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے نمائندے نے تین مختلف مقامات پر منہدم کی گئی قبروں سے باہر پڑی ہوئی انسانی ہڈیاں دیکھی ہیں۔ کئی مزارات کو گرا دیا گیا اور وہاں منقش عمارات کی جگہ اب ملبے کے ڈھیر ہیں۔

مقامی حکومتی انتظامیہ کا موقف ہے کہ شہروں کے پھیلاؤ کے باعث انتہائی قدیمی قبروں کو ختم کیا گیا ہے۔ ایغور آبادی اس حکومتی موقف سے اتفاق نہیں کرتی بلکہ اسے ایغور نسل کے خلاف برسوں سے جاری حکومتی کریک ڈاؤن کا تسلسل قرار دیتی ہے۔

ایک ایغور کارکن صالح ہدیٰ یار کا کہنا ہے کہ یہ چینی حکومت کی ایک نئی مذموم کوشش ہے کہ ایغور آبادی کی اساس کو ہی ختم کر دیا جائے تا کہ یہ نسل اپنی ماضی سے جڑی  پہچان سے محروم ہو جائے اور ایغور قوم بھی چینی نسل ہان کی آبادی جیسی ہو کر رہ جائے۔ ہدیٰ یار کے خاندان کے مرحومین کی قبروں کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے۔

صالح ہدیٰ یار کا مزید کہنا ہے کہ چینی حکومت ایغور نسل کی تاریخی باقیات کو بھی مٹا دینا چاہتی ہے تا کہ اس قوم کے لوگوں کا ماضی، تاریخ، اور گزشتہ نسلوں سے ربط پوری طرح مٹ جائے۔ ہدیٰ یار کے مطابق ایسے اقدامات سے ایغور آبادی کو رنج تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اس کے وقار، پہچان اور شناخت میں کوئی کمی نہیں کی جا سکتی۔

اندازوں کے مطابق اس وقت دس لاکھ کے لگ بھگ ایغور باشندے ایک طرح کے حراستی مراکز جیسے کیمپوں میں بند ہیں اور وہاں ان کی تربیت‘ کے نام پر ذہنی تطہیر کا عمل جاری ہے۔ چینی حکومت ان حراستی مراکز‘ کو تربیتی سینٹر‘ قرار دیتی ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ ان مراکز میں ایغور باشندوں کو انتہا پسندی سے محفوظ  رکھنے کے خصوصی تربیتی پروگرام بھی جاری ہیں۔

مگر انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ چین دس لاکھ اویغور اور دیگر مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں قید کیے ہوئے ہے۔سنکیانگ میں چین کے اقدامات کی امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔ گذشتہ ہفتے امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ویٹیکن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا تھا چین اپنے شہریوں سے خدا کے بجائے حکومت کی پرستش کا مطالبہ کرتا ہے۔

جولائی میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 20 سے زائد ممالک نے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے جس میں چین کے اویغور اور دیگر مسلمانوں سے سلوک پر تنقید کی گئی تھی۔

چینی حکومت سنکیانگ میں پائی جانے والی انتشار کی صورت حال پر بین الاقوامی تنقید کو خاطر میں نہیں لا رہی اور ایغور آبادی کے ساتھ روا سلوک کو درست قرار دیتی ہے۔ ابھی رواں ہفتے کے دوران ہی سنکیانگ کی ایغور آبادی پر بیجنگ کے کریک ڈاؤن کے تناظر میں امریکا نے چین کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان بھی کیا تھا اور کم از کم اٹھائیس سرکاری اداروں اور کاروباری کمپنیوں کو بلیک لسٹ بھی کر دیا تھا۔

DW/BBC

Comments are closed.