عاطف جاوید
ایران کا نام آتے ہی اس کی مسلکی حیثیت کی وجہ سے ہماری سو سائٹی میں مختلف قسم کی آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک طبقہ اپنی عقیدت کی بنیاد پر اپناتن من دھن ایران پر لٹا مرتا ہے اور دوسرا طبقہ مسلکی بغض اور حقارت کی وجہ سے ایران سے بلا وجہ نفرت کرتا ہے۔
تاہم ان دونوں طبقات میں جو سب سے بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایران شروع سے ہی ایسا متشدد مذہبی اور کٹر قسم کا بنیاد پرست ملک تھا۔۔۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ شاہ ایران کے دور میں کیا تھا کیا نہیں تھا اس بحث میں جانے کی بجائے موجودہ یا ماضی قریب کی صورت حال دیکھنا زیادہ اہم ہے۔یا اس سے بھی بہتر آپشن قدیم فارس اس کی تہذیب رہن سہن پر تھوڑی سی ریسرچ کر لینا ہے۔
پہلی تو بات یہ کہ شاہ ایران کے دور میں جو بغاوت ہوئی اور جسے بعد میں ایک مذہبی رنگ دے دیا گیا وہ بالکل بھی مذہبی بنیادوں پر نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا محرک معاشی تھا اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور دیگر عوامل نے مل کر لوگوں کو بغاوت پر اکسایا تھا۔ دوسری بات امام خمینی لوگوں کو صرف مذہبی بنیادوں پر نہیں جیت سکتے تھے بلکہ ساتھ سوشل ویلفئر سٹیٹ برابر معاشی حیثیت اور تیل کی پیدا وار کو قومیانے جیسے نعرے لگانے پڑے۔
عوامی مزاج اور رخ کو بھانپتے ہوئے خمینی کو ایسی پالیسیاں بنانی پڑیں جن کی بنیاد پر حکومت کو طول دیا جا سکے۔۔۔۔ یہاں آ کر جبر اور معاشی آزادیوں کا ایک ملا جلا سا ملغوبہ تیارکیا گیا اور ایران کی عوام نے کہیں عقیدت کہیں ضرورت اور کہیں خوف کی وجہ سے اس نظام کو قبول کیے رکھا۔
تاہم یہ کوئی عین کلاسیکی معاشی انقلاب نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسی پالیسی تھی جس سے ایران معاشی منڈی میں بالکل خود مختار ہو سکتا۔ لہذا امریکہ دشمنی اسرائیل دشمنی اور دوسرے مذہبی عوامل زیادہ دیر نہ چل سکے اور اندرونی بغاوتیں سر اٹھانے لگیں۔معاشی پابندیاں اور دوسرے عوامل نے مل کر پریشر کوکر کی طرح پک رہے سماج کی سیٹی گھما دی۔
زیر نظر تصاویر ایسی ہی ایک بغاوت کا نتیجہ ہیں جو حال ہی میں ایک ایرانی خاتون کی خود سوزی کے بعد زور پکڑ گئی۔جب خواتین کو چالیس سالوں میں پہلی بار سٹیڈیم میں مردوں کے ہمراہ فٹبال میچ دیکھنے کی آزادی دی گئی تو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اتنی چھوٹی بات کے لیے ایک جان دینی پڑی ایک جدو جہد کرنی پڑی تو ایرانی حکومت کا اپنی عوام ہر جبر کس قدر زیادہ ہوگا۔۔ ۔۔اور تصویروں سے اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ اس قید سے نکل کر ایرانی خواتین کس قدر خوش اور پر جوش ہیں۔
خواتین پر جہاں دوسرے معاشی اور روایتی جبر موجود ہیں وہیں خواتین کی اکثریت کو خاص طور پر مذہبی جبر کا بھی زیادہ شدت سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سارے جبر عقیدت یا دھوکے کے با وجود بھی ایرانی خواتین کے اندر سے فارس کی قدیم تہذیب اور ماضی قریب کے ایران کا آزادانہ تصور ختم نہی ہو سکا۔
یہ بغاوت اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ مذہب کے نام پر لگائی گئی پابندیوں کو پورا کا پورا ایرانی معاشرہ من و عن تسلیم نہی کرتا۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سعودی عرب کی طرح اپنے اندرونی انتشار ختم کرنے کے لیے ایران کو بھی اپنی مذہبیت کو کم کرنا ہوگا اور جلد ہی اسی ایران کی طرف واپس لوٹنا پڑے گا جو خمینی انقلاب سے قبل تھا ۔ ورنہ معاشرے میں اس سے بھی زیادہ متشدد اور تیز تحریکیں اور بغاوتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
حکمران طبقات خواہ کسی ملک کے ہوں ان کا انداز حکمرانی یہی ہوتا ہے کہ ایک حد کے بعد جب مزید جبر کرنا ممکن نہ ہو تو آہستہ آہستہ عوام کے مطالبات مان کر ان کا غصہ زائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے پر وہ بےوقوف اس بات سے نا آشنا ہوتے ہیں کہ عوام یا محنت کش طبقہ اپنی ایک فتح سے حوصلہ پکڑ کر اگلی فتح کے لیے لڑائی کی تیاری کرتا ہے اور پھر دوبارہ تحریک کا حصہ بنتا ہے،
ایران میں بھی ایسا ہو رہا ہے اور یہ صرف ایک آغاز ہے۔مستقبل میں ایسی بہت سی تحریکیں ابھر سکتی ہیں اور کمزور معاشی صورت حال کے ساتھ بنا ایرانی عوام کی فطری آزادیاں تسلیم کیے حکمران طبقہ زیادہ دیر نہیں ٹک سکے گا۔
اس ساری بغاوت اور بعد میں اس حق کے تسلیم کیے جانے سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حکمران طبقات جب چاہیں اپنی من مرضی سے مذہب اور شریعت کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے قوانین کو خدا کے نام سے جوڑ کر حکمرانی کے جواز گھڑتے ہیں۔حکمرانوں کی مذہبیت کا تعلق کسی عقیدت یا آخرت کی بہتری یا دنیا کے سکون سے نہیں اور نہ ہی کسی الہامی اور آسمانی عقیدے سے ہوتا ہے بلکہ حکمران طبقات اس ہتھیار کو معاشرے پر اپنا کنٹرول اور ہولڈ رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کل کو اگر ایران اس پکڑ سے نکل جاتا ہے تو پاکستان میں بسنے والے عقیدت مندوں یا بغض رکھنے والے سعودی پیروکاروں کے پاس اپنے اپنے حق میں کیا جواز ہوگا۔ جب سعودی عرب اور ایران میں سیکولر بنیادوں پر طرز حکومت استوار کیا جا رہا ہوگا تو ایسے پاکستانی کس صف میں کھڑے ہوں گے۔
♦