زبیر حسین
جوزف ٹرالوسی نیو یارک کے اساطیری داستانوں کے کرداروں کی طرح شہرت رکھنے والے اسٹاک ٹریڈر بوزی کا ڈرائیور تھا۔ اس کا سارا دن بوزی کو نیو یارک شہر میں ایک جگہ سے دوسری لانے اور لے جانے میں گزر جاتا۔
یہ اگست ٢٠٠٩ کی ایک شام کا ذکر ہے۔ کام ختم کرنے کے بعد جوزف نے مین ہٹن کی ایک کار واش میں اپنی گاڑی دھوئی اور بروکلین کی طرف چل پڑا جہاں اس کا گھر تھا۔ اسے بہت تھکاوٹ اور سستی محسوس ہو رہی تھی۔ کام ختم کرکے وہ خوش تھا کہ اب گھر جا کر آرام کرے گا۔ وہ شادی شدہ، دو بچوں کا باپ، اور ایک عملی انسان تھا۔ اسے کسی بات کا خوف نہیں تھا۔
اس کا خیال تھا کہ اس کی تھکاوٹ اور سستی خود بخود دور ہو جائے گی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ جب تکلیف ناقابل برداشت ہو گئی تو اس نے بیوی کو فون کیا۔ بیوی نے اسے وقت ضائع کئے بغیر ہسپتال جانے کا کہا۔ لیکن جوزف میں مزید گاڑی چلانے کی ہمت نہیں تھی۔ جوزف کی بیوی نے فوراً اس کے ساتھیوں کو فون کیا۔ ان ساتھیوں نے جوزف کو مین ہٹن کے ایک سٹریٹ پر تلاش کر لیا۔ وہ گاڑی پارک کرکے سیٹ پر بے سدھ پڑا تھا۔ ساتھی اسے نیو یارک کے کلیسائی ہسپتال کے ایمرجنسی روم لے گئے۔
جوزف کے چہرے کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔ وہ نرس کو اپنا احوال بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ بیہوش ہو گیا۔ نرس نے فورا” کوڈ بلیو جاری کر دیا۔ اس کا مطلب تھا کہ مریض پر دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ جوزف کی حرکت قلب بند ہو چکی تھی اور وہ مردہ تھا۔
جوزف کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے ساتھی اسے ایک ایسے ہسپتال میں لے آئے تھے جس میں حرکت قلب بند ہونے سے مرنے والوں کو زندہ کرنے والی ٹیکنالوجی اور آلات موجود تھے۔ نیز ہسپتال کا عملہ اس نئی ٹیکنالوجی سے آگاہ اور تربیت یافتہ تھا۔ کوڈ بلیو نشر ہوتے ہی ڈاکٹر اور نرسیں ہر سمت سے بھاگ کر ایمرجنسی روم پہنچ گئے اور انہوں نے فورا” جوزف کی حرکت قلب بحال کرنے کے لئے سی پی آر کا عمل شروع کر دیا۔
یہ ڈاکٹر اور نرسیں اپنے پیشے میں انتہائی مہارت رکھتے تھے۔ اس ٹیم میں ڈاکٹر راہول شرما اور ڈاکٹر فلاویو گادیو بھی شامل تھے۔ انہوں نے جوزف کو سٹریچر پر لٹا کر اس کی قمیض پھاڑ دی، پینٹ کو قینچی سے کتر دیا، اور ڈی فبرلیٹر یا برقی جھٹکا پہنچانے والی مشین کے گول برقیرے اس کی چھاتی کی جلد پر لگا دئیے۔ جوزف کے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے برف کے تھیلے اس کے دائیں بائیں اور بغلوں کے نیچے رکھ دئیے گئے۔ نیز انجکشن کے ذریعے اس کی رگوں میں سرد نمکین مائع یا محلول داخل کر دیا گیا۔ یہ سارا کام ڈاکٹروں نے ایک منٹ میں کر دیا۔
اب ڈاکٹر تواتر کے ساتھ کبھی سی پی آر‘ کبھی ایڈرینا لین (برگردی مادہ) کے انجکشن، اور کبھی برقی صدمے کے ذریعے جوزف کے دل کی دھڑکن بحال کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ لیکن دل کی دھڑکن بند ہونے اور جسم اور دماغ کے خلیات کو آکسیجن اور غذا نہ ملنے سے جوزف عملا” مردہ تھا۔
منٹ پر منٹ گزرتے گئے۔ ڈاکٹروں نے جوزف کی چھاتی کو دبانے اور برقی جھٹکے پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب دس منٹ گزر گئے اور جوزف کے دل کی دھڑکن بحال نہ ہوئی تو ڈاکٹروں اور نرسوں کے چہروں پر مایوسی جھلکنے لگی۔ میڈیکل سائنس میں اگر دس منٹ میں مریض کے دل کی دھڑکن یا ہوش و حواس بحال نہ ہوں تو مزید کوشش لاحاصل سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل کی دھڑکن بند ہونے سے اگر دس منٹ تک دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایسا مریض بچ بھی جائے تو باقی زندگی اسے ایک لاش کی طرح بستر پر پڑے پڑے گزارنی پڑتی ہے۔
جوزف کی خوش قسمتی تھی کہ ڈاکٹروں کی ٹیم کا سربراہ بہت مضبوط قوت ارادی کا مالک تھا۔ پندرہ منٹ گزر گئے۔ بیس منٹ گزر گئے۔ تیس منٹ گزر گئے۔ ڈاکٹروں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ چھ بار برقی جھٹکے دینے کے علاوہ ہزاروں بار جوزف کی چھاتی دبا چکے تھے۔ نیز وہ جوزف کو ایڈرینا لین کے بیشمار انجکشن لگا چکے تھے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کے جسم پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔ ایمرجنسی روم میدان جنگ کا سماں پیش کر رہا تھا۔ یہ جنگ ڈاکٹروں اور موت کے فرشتے کے درمیان ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر مردہ جوزف کو واپس دنیا میں لانا چاہتے تھے اور حضرت عزرائیل اسے اگلے جہان لے جانے پر بضد تھے۔ اس کشمکش میں چالیس منٹ گزر گئے۔ ڈاکٹروں اور عزرائیل میں سے کوئی بھی ہار ماننے پرآمادہ نہیں تھا۔
اگر یہ واقعہ دس سال قبل پیش آیا ہوتا تو اس مرحلے پر جوزف کے دل کی دھڑکن بحال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اتنا وقت گذرنے کے بعد اس کا دماغ ناکارہ ہو چکا ہوتا۔ ڈاکٹروں کو اعتماد تھا کہ میڈیکل سائنس میں نئی پیش رفتوں اور ٹیکنالوجی کی بدولت وہ نہ صرف جوزف کی زندگی بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ اسے نارمل زندگی گزارنے کے قابل بھی بنا دیں گے۔
بالآخر سینتالیسویں (٤٧) منٹ پر جوزف کے دل نے حرکت شروع کر دی۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اب انھیں یہ معلوم کرنا تھا کہ جوزف کو دل کا دورہ کیوں پڑا۔ غالب امکان یہی تھا کہ دل کو آکسیجن سے بھرپور خون فراہم کرنے والی کسی بڑی شریان کے بند ہونے سے ایسا ہوا۔ جوزف کو ٹیسٹوں کے لئے قلب کی لیب منتقل کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے لیب میں جوزف کی حرکت قلب پھر بند ہو گئی۔
یوں ایک بار پھر ڈاکٹروں اور حضرت عزرائیل کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی جو پندرہ منٹ تک جاری رہی۔ اس بار بھی ڈاکٹر جیت گئے۔ ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ جوزف کی کئی شریانیں بند تھیں۔ ڈاکٹروں کو یہ بند شریانیں کھولنے میں چوبیس گھنٹے لگے۔ اس آپریشن کے دوران ڈاکٹروں نے جو زف کے جسم کو آرکٹک سن نام کی مشین کے ذریعے ٹھنڈا رکھا تاکہ آکسیجن کی کمی سے اس کے دماغ اور دیگر اعضائے ریشہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ بیس ڈاکٹروں اور نرسوں کی انتھک کوششوں، میڈیکل سائنس، اور ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ ایک گھنٹہ مردہ رہنے کے باوجود جوزف ٹرالوسی آج نارمل زندگی گزار رہا ہے۔
نوٹ: آپ یہ واقعہ ڈاکٹر سام پرنیا کی کتاب میں
Erasing Death
میں پڑھ سکتے ہیں۔