لیاقت علی
پاکستان کی فلم انڈسٹری کی زبوں حالی،بے مقصدیت اورسطحیت کا ذکر کیا جائےتو کچھ افراد پاکستانی فلموں کے سنہری دورکا ذکرشروع کردیتےہیں ایک ایسا دور جس میں ان کےنزدیک بہت شاندار اور ہر لحاظ سے اعلی پائے کی فلمیں بنتی تھیں۔
کچھ تو یہ تک کہتے ہیں کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی موجودہ دگرگوں صورت حال کآ ذمہ دار جنرل ضیا کا عہد حکومت ہے جس میں اسلامائزیشن کے نام پرآزادی رائے گلا گھونٹا گیا اورعلم وآرٹ کی نشوو نما کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے اورہراعتبارسے حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔فلمی دنیا کا یہ فرضی سنہرا اور کلا سیک دورعام طور پر1947۔1970 تک کے درمیانی سالوں تک کوسمجھا جاتا ہے۔
سنہری دورکی متھ کے قائل یہ حضرات ایسی متعدد اردو اور پنجابی فلموں کو پیش کرتے اوران پراتراتے ہیں جوان کےنزدیک کلاسیک کادرجہ رکھتی ہیں۔ ان کلاسیک فلموں میں پنجابی فلم کرتارسنگھ کا ذکر بطور خا ص کیا جاتا ہے اور اسے اعلیٰ پائے کی کلاسیکی پنجابی فلم قراردیا جاتا ہے۔ یہ فلم اردو اورپنجابی کے شاعر سیف الدین سیف نے 1959 میں بنائی تھی۔وہ اس فلم کےکہانی کار، فلمسازاورہدایت کار تھے۔
اس فلم کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب یہ فلم پروڈیوس ہوئی تھی اس وقت ملک میں پہلا مارشل لا جنرل ایوب خان لگاچکے تھے اور ملک مارشل لا کے استبدادی ضابطوں کے تحت چل رہا تھا۔ پورا میڈیا اور موقع پرست سیاسی قیادت فوجی قیادت کے گن گارہی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس فلم کا ہیرو عمر دین( سدھیر)فوجی ہے جوبرما کے محاذ پر دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے کے بعد اپنے گاوں واپس آتا ہے۔ یہ فوجی بہت غیرت مند،اصول پسند اورنیک اوربیبا نوجوان ہے۔
کرتار سنگھ 1947 کے قریب ایک ایسے پنجابی دیہات کی کہانی ہے جہاں ہندو،سکھ اورمسلمان باہمی پیار اورمحبت سے رہ رہے ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کی مذہبی تفریق نہیں ہے۔ یکایک ان میں مذہبی فرقہ بندی پیدا ہوجاتی ہے جو فرقہ ورانہ جنگ کا روپ دھار لیتی ہے۔ یہ جنگ تینوں مذاہب کی بجائے دو تین افراد کی ذاتی جنگ ہے۔گاوں کے مسلمانوں کی قیادت اس فوجی کے ہاتھ میں ہے جب کہ مخالف دھڑے کو کرتار سنگھ لیڈ کرتاہے۔
کرتار سنگھ شروع سے ہی اکھڑ، بدمعاش اور جھگڑالو ہےجب کہ مسلمان عمر دین گاوں کی بہوبیٹیوں کی عزت کا رکھوالا اور نگہبان ہے۔جب پاکستان بن جاتا ہے تو مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف نقل مکانی کرنا پڑتی ہے تو اس قافلے کی قیادت یہ سابق فوجی عمر دین کرتا ہےجو پاکستان پہنچ کرپاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کی قسم اٹھاتا ہے۔ پاکستان کا پہلا تعارف اذان کی صورت میں کرایا جاتا ہے جو پاکستان میں داخل ہونے والوں کی سنائی دیتی ہے۔
اس فلم کا میوزک سلیم اقبال نے دیا تھا جو بہت خوبصورت ہے۔ ایک بات دلچسپ ہے کہ سکھوں میں جس سکھ کو بہت زیادہ ہمدرد، خدا ترس اور انسان دوست دکھایا گیا ہے وہ بھی سابق فوجی جرنیل سنگھ ہے یہ کردار اجمل خاں نے ادا کیاتھا۔ یہ کیسا پنجابی دیہات تھا جہاں ہندو بنیے کی بیٹی لاجو ساڑھی پہنتی ہے اورمسلمان کسان کی بیٹی ریشماں شلوار قمیض۔ پنجابی دیہاتوں میں عورتیں بلا تخصیص مذہب کم و بیش ایک سا لباس پہنتی تھیں۔ ساڑھی کبھی بھی پنجاب کے دیہات کا لباس نہیں تھا۔
پنجابی مکالموں میں اردو الفاظ کی بھرمار ہے بالخصوص جب پاکستان پہنچ کرعمردین جوتقریر کرتاہے اس میں بھی پنجابی سے زیادہ اردو الفاظ ہیں۔ فلم میں علاوالدین نے کرتارسنگھ کا کردار ادا کیا تھا اور وہ اپنے اس کردارمیں اوورایکٹنگ کرتےنظرآتے ہیں۔یہ بھی اپنے دورکی فارمولا فلم تھی ۔
♦