سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ جنرل باجوہ کی تقرری چھ ماہ کے لیے ہو گی اور اس کا اطلاق جمعرات 28 نومبر سے ہو گا۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر کو ختم ہر رہی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے اگست میں انہیں مزید تین سال کے لیے آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 243، آرمی ایکٹ 1952 اور آرمی ریگولیشنز رولز 1998 میں کہیں بھی مدت ملازمت میں توسیع یا دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں تاہم عدالت نے اس معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کیا اور معاملات کو قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے یقین دلایا ہے کہ اس معاملے میں قانون سازی کی جائے گی اور عدالت چھ ماہ بعد اس سلسلے میں ہونے والی قانون سازی کا جائزہ لے گی۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے تو وہ قانون کہاں سے لائیں؟چیف جسٹس نے جواب دیا کہ گذشتہ 72 برس سے ایسا نہیں ہوا کیونکہ اب یہ معاملہ عدالت کے سامنے آیا ہے تو اسے قانون کے مطابق دیکھنا پڑے گا۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آرمی چیف کا کام ملک کا دفاع ہوتا ہے وہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر ڈرافٹنگ اور سمریاں تیار نہیں کرسکتا، اس سے وقت اور انرجیز کا ضیاع ہوتا ہے۔ گذشتہ دن مضحکہ خیز خبریں چل رہی تھیں کہ توسیع کے نوٹیفیکیشن سے متعلق مشاورتی اجلاس میں آرمی چیف بھی پہنچ گئے ہیں۔
چیف جسٹس آصف کھوسہ نے اٹارنی جنرل انور منصور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سماعت کے دوران جو سمریاں پیش کی گئی تھیں اس کے بارے میں جب عدالت نے یہ کہا کہ اس میں کچھ غلطیاں ہیں، چند خلا ہیں تو اٹارنی جنرل نے یہ کہا تھا کہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے تو اگر آپ نے کوئی غلطی نہیں کی تو تیسری سمری کیوں لے کر آئے ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ تمام معاملات کو قانون کے مطابق چلنا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ جنھوں نے قوم کی خدمت کی ہے ہمارے دل میں ان کا بہت احترام ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر احترام آئین پاکستان کا ہے جس پر عملدرآمد کرنے کے ہم سب پابند ہیں۔
سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے عدالت کے سامنے سابق آرمی چیفس اشفاق پرویز کیانی کی توسیع جبکہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی سمریاں پیش کیں۔ اٹارنی جنرل نے فروغ نسیم کی طرف اشارہ کر کے عدالت کو بتایا کہ ان کا معاملہ بھی حل ہوگیا ہے۔
ماہرین کی رائے میں آرمی چیف کی مدت کے مسلے پر آئینی اور قانونی بحران ابھی ختم نہیں ہوا ہے ۔۔ عدالت نے عارضی ریلیف دیا ہے۔ آئینی ترمیم کے لئے اپوزیشن کو راضی کرنا ہوگا۔۔ اس کام کے لئے فوج اگر اپوزیشن سے رابطہ کرےگی تو انہیں اپوزیشن جماعتوں کے اس اہم مطالبے کو سامنے رکھنا ہوگا۔۔ یعنی نئے انتخابات۔۔ اس لئے خیال یہ ہے کہ بحران ختم نہیں ہوا ہے ۔
DW/BBC