ہندوستان کی سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے آٹھ سال تک ایودھیا میں سولہویں صدی کی بابری مسجد کے تنازعہ کی سماعت کے بعد فیصلہ دیا ہے کہ مسلم فریق یہ ثابت نہیں کر سکے ہیں کہ 1528سے جب کہ بابری مسجد تعمیر ہوئی 1857تک مسجد میں نماز پڑھی جاتی تھی، دوسری جانب ہندو فریق بھی ثابت نہیں کر پائے کہ اس زمین پر جہاں بابری مسجد تھی ان کی زمین ہے، لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ زمین کے مالکانہ حقوق ہندووں کو دے دئے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے آثار قدیمہ کے سروے کی شہادت کے مطابق 1992میں مسمار شدہ بابری مسجد کے نیچے جو آثار ملے ہین وہ اسلامی نہیں ہیں اس لئے 277ایکڑ کی یہ متنازعہ زمین ہندووں کو دے دی جائے اور مسلمانوں کو ایودھیا میں اپنی الگ مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ ایکڑ زمین دے دی جائے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ رام مندر کی تعمیر کے لئے تین مہینوں کے اندر اندر ایک ٹرسٹ تشکیل دے جس میں ایک رکن وشوا ہندو پریشد کا ہوگا جس کا متنازعہ زمین پراس وقت قبضہ ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بارے میں خاموش ہے کہ 1528سے لے کر 1857 تک بابری مسجد میں نماز اد ا نہیں کی جاتی تھی تویہ کس مقصد کے لئے استعمال ہوتی تھی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر جسے تاریخی کہا جارہا ہے کسی کو اچھنبا اور حیرت نہیں ہوئی ہے لیکن اس بات پر تعجب ضرور ہوا ہے کہ یہ اس طویل اور پیچیدہ مقدمہ کا فیصلہ عدالت کے پانچ ججوں کا متفقہ فیصلہ ہے۔ ان ججوں نے یہ فیصلہ کشمیر کی خاص حیثیت کے خاتمہ کے خلاف مقدمہ میں تاخیرکے بعد ہندوتا کے علم برداروں کی خوشنودی کے پیش نظر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ، جماعت اسلامی ہند، جمعیت العلمائے ہند اور سنی وقف بورڈ کے رہنماوں نے کہا کہ وہ اس فیصلہ پر مطمئن نہیں ہیں لیکن وہ اس فیصلہ کو قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ مسلم رہنماوں نے البتہ اس پر طمانیت کو اظہار کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اعتراف کیا ہے کہ 1992میں بابر ی مسجد کا انہدام قانون کی عمل داری کی صریح خلاف ورزی تھا اور 1949میں بابری مسجد کے اندر رات کے اندھیرے میں مورتیا ں رکھنے کا عمل بھی غیر قانونی تھا۔
مسلم رہنماوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے مسجد کے لئے پانچ ایکڑ زمین کی جو پیشکش کی ہے وہ اسے قبول نہیں کریں گے کیونکہ بابری مسجدکی 67ایکڑ زمین پر قبضہ کے بعد پانچ ایکڑ زمین خیرات میں دینا کہاں کا انصاف ہے۔ اس وقت ہندوستان میں ہندوتا کا جو زہریلا ماحول ہے اس میں ظاہر ہے مسلمان اس فیصلہ پر اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی سیاسی جماعت اور ادارہ مسلمانوں کی حمایت میں کھڑ ا نہیں ہوگا، حتی کہ کانگریس بھی بے بس نظر آتی ہے جس کے ممتاز رہنما نہرو نے 1949میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے کے اقدام کی شدید مذمت کی تھی۔
مسلمانوں اور بہت سے سنجیدہ ہندووں کے لئے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اسی طرح المناک فیصلہ ہے جس طرح 6دسمبر 1992کو بھارتیا جنتا پارٹی کی قیادت کی شہہ پر ہندو کار سیوکوں نے پانچ سو سال قدیم مسجد کے تین گنبدون پر چڑھ کر اسے مسمار کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ اس نے یہ فیصلہ خالص قانون کی بنیاد پر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کایہ کہنا کس قدر تضاد کا حامل ہے کہ بابری مسجد کی ملکیت ثابت نہیں ہو سکی ہے اس لئے اسے ہندووں کو دے دیا جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق اس جرم کی جگہ جہاں بابری مسجد شہید کی گئی تھی وہاں اب رام مند ر بنے گا، بابری مسجد کی مسماری کو خود سپریم کورٹ نے قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اس لحاظ سے یہ وہ جگہ ہے جہاں جرم سر زد ہوا تھا تو اس جگہ تعمیر ہونے والا مندر مقدس ہوگا اور عبادت کے قابل ہوگا۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مسلم فریق یہ ثابت نہیں کر سکے کہ 1857میں بابری مسجد میں نماز ادا کی جاتی تھی۔ اس پر سپریم کورٹ کے ریٹایرڈ جج جسٹس اشوک کمار گنگولی نے سپریم کورٹ پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اس ملک میں کئی نسلوں نے دیکھا ہے کہ ایودھیا میں ایک مسجد تھی جہاں نماز اد کی جاتی تھی جو مسمار کر دی گئی اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت وہاں رام مندر بنے گا۔
جسٹس گنگولی نے کہا ہے کہ آئین کے طالب علم کے ناطے مجھے یہ فیصلہ قبول کرنے میں تامل ہے۔جسٹس گنگولی کا کہنا ہے کہ بھلے1857 میں نماز پڑھنے کے ثبوت نہ ملے ہوں لیکن1949میں تو یہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ ہمارا آئین جب منظور ہوا تو اس وقت وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ جسٹس گنگولی نے دلیل پیش کی کہ ایک ایسی جگہ جہاں نماز پڑھی گئی اور اس جگہ مسجد تھی تو مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی مذہبی آزادی کا تحفظ کریں، آئین یہ حق انہین دیتا ہے۔
جسٹس گنگولی کہتے ہیں کہ رام کون ہیں کیا اس کے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ یہ محض عقیدے اور یقین کی بات ہے، ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ مسلمانوں کو دوبارہ مسجد بنانے کی ہدایت دینی چاہئے تھی یا پھر اگر یہ تنازعہ کا باعث ہے تو وہاں مندر مسجد کے بجائے اسکول، کالج یا ہسپتا ل بنانے کی ہدایت دینی چاہئے تھی یہ زمین ہندووں کو نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس گنگولی کا کہنا ہے کہ بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کو دعوی ہے کہ وہ کسی بھی مسجد کو توڑ سکتے ہیں اور وہ آج جو چاہیں کر سکتے ہیں ان کو اب تک حکومت کی حمایت حاصل تھی اب ان کو عدلیہ کی بھی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔
بلاشبہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کاعروج مکمل ہوگیا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے نعرے کی بدولت جن سنگھ اور بعد میں بھارتیا جنتا پارٹی نے پچھلے تیس سال میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ہے۔ رام مندر کی تحریک سے پہلے ہندوستان کی پارلیمنٹ میں جن سنگھ کے صرف دو اراکین ہوتے تھے لیکن بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے جذباتی نعرہ کی بدولت اب بھارتیا جنتا پارٹی کے پارلیمنٹ میں 302اراکین ہیں اور ملک پر اقتدار حاصل ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کی بدولت، نریندر مودی اور بھارتیا جنتا پارٹی کو ایسی فتح سے ہم کنار کیا ہے جس کو یہ طویل عرصہ تک ہندوتا اور ہندوستان کو مکمل ہندو مملکت بنانے کی مہم کے لئے استعمال کریں گے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نے ہندوستان کے اس نظریہ کو پاش پاش کر دیا ہے کہ اس سر زمین پر پیدا ہونے والے ہر شخص کو جو چاہے کسی مذھب سے تعلق رکھتا ہو مساوی حقوق حاصل ہیں۔
اس کے بجائے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے اس نظریہ کو فتح حاصل ہوئی ہے کہ یہ ملک ہندوں کا ہے او ر اقتدار اعلی برہمنوں کو حاصل ہے اور اس سر زمین پر رہنے کا حق صرف ان کو حاصل ہے جو اکثریت کے مذہبی عقاید کے تابع رہیں اب خطرہ ہے کہ بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور آر ایس ایس۔ ہر مسجد پر یہ کہہ کر دھاوا بولیں گے کہ یہ مندر رتوڑ کر بنائی گئی ہے۔
♥