لیاقت علی
کوئی330 ایکڑ پروسیع و عریض گوردوارہ کرتار پورصاحب کاریڈورکی ہنگامی بنیادوں پر تعمیر،کاریڈور کی تعمیر اورتزئین و آرائش میں وزیراعظم عمران خان کی حد سے زیادہ دلچسپی اورافتتاحی تقریب میں وزیر اعطم کی بنفس نفیس شرکت،ننکانہ صاحب میں ننکانہ صاحب یونیورسٹی کا قیام اور بنیادی پتھررکھنے کی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان کی بالالتزام شرکت، گورو نانک جی کے 550جنم دن کی مناسبت سے پچاس روپے کایادگاری سکہ اوریادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا۔ بابا گورونانک کی اس قدر پذیرائی کیوں؟ کیایہ سب تام جھام بابا جی کے خیالات و نظریات کی بنا پر ہے یا اس کے پش پشت کچھ اور ایجنڈا ہے؟
بابا گورونانک بلاشبہ ایک مہان ہستی ہیں وہ اپنےدورکےعظیم پنجابی دانشوراور شاعرتھے۔ وہ انسانوں کے مابین ذات پات کی تقسیم اورمذہب کے نام پرتفریق ختم کرنے کے داعی تھے۔ وہ ایکتا،محبت اورانسان دوستی کی بنیاد پرایک ایسا سماج تعمیر کرنے کے خواہاں تھے جو نفرت، لوبھ اورلالچ سے پاک ہو۔وہ اپنے عہد کے سبھی مذاہب کی انسان دوست تعلیمات کے باہمی اختلاط پر یقین رکھتےتھے۔
کیا پاکستان کی موجودہ حکومت یا اس سے پہلے برسراقتداررہنے والی کسی بھی حکومت کے بارے میں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ وہ بابا گورونانک کے نظریات اور خیالات سے ہم آہنگ پالیسیوں اورنظریات سےہم آہنگ اورعمل پیرا تھی؟ بالکل بھی نہیں۔ ایسی کوئی حکومت ابھی تک برسراقتدارنہیں آئی جوپاکستان کے تمام شہریوں کے لیے بلا لحاط مذہب مساوی شہریت کے اصولوں پریقین رکھتی ہو۔
آج بھی پاکستان کا آئین مذہب کی بنیاد پرتفریق اورامتیازی سلوک کو تحفظ فراہم کرتاہے۔ پاکستان کی کل آبادی کی تین فی صد مذہبی اقلیتیں شدید اقسام کی مذہب کےنام پر امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔مذہب کی جبری تبدیلی کے ہتھیار سے ہندو اور مسیح اقلیتوں کے نوجوان لڑکیوں کو شکار کیا جاتا ہے اور ان کا کوئی حکومتی اور ریاستی ادارہ ان کا پرسان حال نہیں ہے۔
گورونانک سے یہ محبت اور عقیدت ان کے نظریات کی بنا پر نہیں بلکہ پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کےایک جزو کی بدولت ہے۔پاکستان کے قیام کے ایک دہائی بعد ہی پاکستان کے سکیورٹی ایکسپرٹس نے بھارت دشمنی کے تناظر میں سکھوں کو پاکستان کا اپنا دوست بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔
پاکستان اور بھارت کی پنجاب کی مشترکہ سرحد پر سکھوں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی ادارےسمجھتےہیں کہ بھارت مخالف پالیسیوں کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے سرحد پر بیٹھی سکھ آبادی کو اپنے حق میں کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکھوں کی حد سے زیادہ خوشامد کی جاتی ہے اور اب جی ایج کیو کے پلان کے مطابق گوردوارہ کرتار پور صاحب کاریڈور، گورو بابا نانک یونیورسٹی اور شاہی قلعہ لاہور میں رنجیت سنگھ کے مسجمے کی تنصیب جیسے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
یہ بھارت سے دوستی نہیں بلکہ بھارت سے دشمنی نبھانے کا پراجیکٹ ہے اوریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا یہ سب کچھ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کے بھارت مخالف جہادی پراجیکٹ کا اہم حصہ ہے۔ ان کا ماٹو ہے سکھوں سے دوستی کاڈرامہ اور بھارت سے مستقل دشمنی کی پالیسی پرپوری تندہی سےعمل درآمد۔
اگراچھا کام بری نیت سے کیا جاے تو اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے۔اگر پاکستان واقعی بھارت کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہے تو تمام شہریوں کے لیے ویزا کے حصول کو آسان بنائے، ریل اور روڈ کے ذریعے سفر کو آسان بنائے۔ واہگہ بارڈر کے ذریعے دو طرفہ تجارت کو ممکن بنائے۔
♦
One Comment