خیبرپختونخوا حکومت نے معدنیات کی ملکیت کی قانون کی توسیع نئے ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) تک کردی ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطابق اس اقدام سے بدامنی کے شکار علاقوں کو مزید معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گاکیونکہ اس قانون کے بعد مقامی افراد اربوں ڈالر کے معدنیات کی ملکیت میں اپنے حصے سے محروم ہوجائیں گے۔
گو کہ حکومتی وزراء کا مؤقف ہے کہ یہ قانون قبائلی عوام کی خواہش اور مطالبے پر اس قانون کو لاگو کیا گیا ہے لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اس قانون کو قبائلی عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق 1،47،000 مربع کلومیٹر مشتمل صوبہ خیبرپختونخوا (بشمول سابق فاٹا) میں اربوں ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ معدنی ذخائر کے ماہرین کے مطابق اگر جدید سائنسی طریقوں سے ان معدنیات کو زیراستعمال بنانے کے طریقہ کار پر عمل کیا گیا تو کچھ دہائیوں میں ملک کی معاشی حالت کو بدلا جاسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سابقہ فاٹا میں معدنی ذخائر کہاں ہیں اور کتنی مقدار میں ہیں؟
امریکہ میں مقیم ماہر ارضیات ڈاکٹر عاصم یوسفزئی نےاپنی کتاب افغانستان فرام کولڈ وار ٹو گولڈ وار میں ان ذخائر کے مراکز اور مقدار کی تحقیق کی ہے۔ڈاکٹر عاصم یوسفزئی کے مطابق سابقہ فاٹا میں 10 ہزار ملین ٹن ماربل، پانچ ملین ٹن میگینیز، دس ملین ٹن کرومائٹ،81 ملین ٹن کوئلہ، 35 سے 55 ملین ٹن تک کاپر تانبہ،چھ ملین ٹن نرم پتھر، 200 ملین ٹن جپسم، پانچ ملین ٹن کوارٹز اور تقریباً 100 ملین ٹن سے زائد گرینائٹ کے ذخائر موجود ہیں۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر معدنیات ڈاکٹرامجد علی بھی مان چکے ہیں کہ یہ ذخائر ایک کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ دوسری جانب فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کےایک آفیسر ہمایون خان نے ایک انگریزی جریدے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ صرف شمالی وزیرستان میں 35 ملین ٹن کاپر موجود ہیں۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ماہر ارضیات شاکراللہ کہتے ہیں کہ چترال اور ملاکنڈ میں پانچ اقسام کے ذخائر موجود ہیں جس میں سب سے زیادہ پچاس اقسام کے ماربلز اور گرینائیٹ کے علاوہ جیم سٹون بھی پائے جاتے ہیں۔ جیم سٹونز میں زمرد، پکھراج، ایکوا مرین اور یاقوت ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
اسی طرح ماہر ارضیات مظہرعلی خان کہتے ہیں کہ باجوڑ اور مہمند میں بہترین ماربل، میگنیز اور کرومائیٹ موجود ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماہرین نے ان معدنی ذخائر کا اندازہ کب اور کیسے لگایا؟ وزیرستان میں معدنی ذخائر کی تلاش کا عمل 1971ء میں فاٹا ڈویلپمنٹ کارپوریشن نامی ادرے نے شروع کیاتھا جس کا دفتر پشاور ورسک روڈ پر واقع تھا۔ ڈاکٹر عاصم یوسفزئی کے مطابق معدنی ذخائر کے تلاش کرنے کے خصوصی طریقے ہیں۔
مثال کے طور پر سب سے پہلے جیولوجیکل سٹرکچرل میپنگ کی جاتی ہے جس میں علاقے کا نقشہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد جیوفزیکل سروے کی جاتی ہے۔ جیوفزیکل سروے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ زمین کے اندر مقناطیسی لہریں بھیجی جاتی ہیں جس سے ذخائر کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس کے بعد کور ڈریلنگ کی جاتی ہے اور مشین کے ذریعے پورے پتھر کو نکالا جاتا ہے۔ نکالے گئے پتھر کے ساتھ ساتھ اس میں موجود مواد کو جانچا جاتا ہے اور اسی طرح معدنی ذخائر کو ڈھونڈاجاسکتا ہے۔ اس کے بعد پورے علاقے کا ایک “تھری ڈی ماڈل” بنایا جاتا ہے۔
اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے شمالی وزیرستان میران شاہ کے علاقوں بویا اور شینکئی میں 700 میٹر کور ڈریلنگ ہوچکی ہے۔ڈاکٹر عاصم یوسفزئی جنہوں نے اپنی تحقیق کے دوران (1993 سے 1996تک) ان علاقوں کے دورے کئے تھے ،کہتے ہیں کہ اس سارے عمل میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس علاقے میں 35 ملین ٹن کاپر کے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ ذخائر اس سے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں کیونکہ جب شینکئی میں ڈریلنگ ہورہی تھی تو نکالے گئے پتھروں میں کاپر کی ایک بڑی مقدار موجود تھی جسے دیکھ کر کام کرنیوالے بھی ششدر رہ گئے تھے۔
شمالی وزیرستان کے ذخائر:۔
شمالی وزیرستان میں معدنی ذخائر جس جیولوجیکل پٹی پر پائے جاتے ہیں اسے ایسٹرن ٹیتیان میٹالوجونک بلٹ کہا جاتا ہے، یہ علاقہ مشرقی یورپ سے شروع ہوکر ترکی تک اور پھر پاکستان کے بلوچستان ریکوڈک سے ہوتے ہوئے افغانستان کے مس عینک تک پہنچنے کے بعد ہندوستان تک جاتی ہے۔
یہاں ایک اور اہم سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان معدنی ذخائر یا معدنیات کی قیمت کتنی ہے؟ امریکا میں مقیم تیل اور گیس تلاش کرنے کے ماہر رسول محمد کے مطابق معدنی ذخائر کی مقدار سے اقتصادی اہمیت اہم ہے کیونکہ ان تمام مراحل میں دیکھا یہ جائیگا کہ ان پتھروں میں موجود اصل مواد کتنی ہے یعنی اگر ایک ٹن تک مواد نکالا جاتا ہے تو اس میں سے شاید ایک فیصد یا اس سے بھی کم قابل استعمال معدنیات موجود ہوتے ہیں۔
برٹش یونیورسٹی کولمبیا کی ایک رپورٹ کے مطابق چاغی (بلوچستان) کے ریکوڈک ذخائر دنیا میں تیسری نمبر پر ہیں۔ دنیا میں معدنی ذخائر کی سب سے بڑی مقدار منگولیا جبکہ دوسری بڑی مقدار ایران میں پائی جاتی ہیں۔
رسول محمد کے مطابق ریکوڈک میں 218،000 میٹر تک ڈریلنگ (کھدائی) ہوچکی ہے جس میں سے پانچ اعشاریہ نو ارب ٹن تک کے پتھر نکالے گئے لیکن اس میں صرف 0.43 فیصد (25ملین ٹن) کاپر پائی گئی۔ اقتصادی پیمانہ پر اگر ماپا جائے تو 25 ملین ٹن میں 12 ملین ٹن تک کی کاپر موجود ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق ماہرین ارضیات عموماً ایک اچھی تصویر کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن کھدائی کے ماہرین اس علاقے کی فیزیبیلیٹی سٹڈی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کر تے ہیں۔ یعنی اگر کسی ایک کھدائی کے دوران ایک ٹن سے 0.4 فیصد کاپر نکل آتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ دوسری کھدائی میں اسکی مقدار اور بھی کم ہو لیکن لاگت اسی طرح ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی امکان ظاہر کیا جا سکتا ہےکہ اگر شینکئی کے علاقہ میں ایک ٹن کاپر پر جتنی لاگت آتی ہے، دوسری کھدائی میں اس سے کم لاگت پر اسی مقدار کی کاپر نکل آئے تو سرمایہ کار عموماً کم خرچ والے کو ہی ترجیح دیتی ہے۔
صرف شمالی وزیرستان کے کاپر کی اہمیت کتنی ہے؟
سابقہ فاٹا کے 27،000 مربع کلومیٹر علاقے میں موجود معدنیات انتہائی قیمتی ہیں لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے کاپر کے معدنیات کی وجہ سے ترقی کی ہے۔ لندن کے میٹل ایکسچینج میں اس وقت ایک ٹن کاپر کی قیمت تقریباً 6000 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ ڈاکٹرعاصم یوسفزئی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ اس حساب سے صرف وزیرستان کے کاپر کی قیمت 22 ارب امریکی ڈالر بنتے ہیں۔
اس حساب سے اگر شمالی وزیرستان کے تانبے سے بحیرہ عرب میں سے ایک چمچ پانی کے برابر بھی لئے جائیں یعنی صرف دو لاکھ ٹن کاپر کو 6000 ہزار امریکی ڈالر کے عوض بیچا جائے تو سابقہ فاٹا کے ساتوں اضلاع میں شوکت خانم میموریل ہسپتال جیسے سات ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسی سات یونیورسٹیاں بنائی جاسکتی ہیں۔
شوکت خانم فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ایک ہسپتال بنانے کیلئے کل لاگت 13 ارب پاکستانی روپے درکار ہیں جس میں 2800 سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ اسی حساب سے قبائلی اضلاع کی سات جامعات اور سات ہسپتالوں میں (اگر یہ بن جائیں) 40 ہزار افراد برسر روزگار ہوجائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے ادارے بنانےکی وجہ سے کاروباری لوگ ٹرانسپورٹ، ہوٹلز، بازار وغیرہ کی شکل میں ان علاقوں کا رخ کرلیتے ہیں۔ اگر ان علاقوں میں اتنے تعلیمی ادارے اور روزگار مہیا کئے جائیں تو کیونکر لوگ باہر ممالک میں محنت مزدوری کیلئے طویل سفر کریں گے اور زندگی کے قیمتی ایام وہاں بسر کریں گے۔
ماہرین کے مطابق شمالی وزیرستان میں ڈریلنگ یعنی کھدائی کا کام 1971ء میں شروع کیا گیا تھا، اگر اس عمل کو گذشتہ 30 سالوں میں ختم کیا جاچکا ہوتا تو اب تک (سابقہ فاٹا) دنیا کے خوبصورت ترین، آباد اور ترقی یافتہ علاقہ بن چکا ہوتا جہاں کے عوام عرب شیوخ کی طرح دولتمند ہوتے لیکن بدقسمتی سے یہ علاقے پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے گردانے جاتے ہیں۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر جلد سے جلد ان معدنیات کیلئے مجوزہ طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے کھدائی نہیں کی گئی تو ا نکی اہمیت کم ہوتی چلی جائیگی۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے سائنسی ماہرین آسان ذرائع سے توانائی پیدا کرنیوالی مشینیں بنارہے ہیں اور مہنگے داموں قدرتی ذخائر ملنے کے متبادل کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔
♦