محمد حسین ہنرمل
“حاجی سید احمد سیلاب افغانستان میں ایک فلاحی تنظیم چلا رہے ہیں ۔ یہ مشفق اور درد دل رکھنے والا انسان اُن تمام افغانوں کا مالی تعاون کرنا اپنی زندگی کا مشن بناچکے ہیں جو چالیس سالہ خونی فسادات ، طویل خانہ جنگی اور بیرونی یلغار کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں اپاہج ، یتیم ، بے گھر اور بے آسرا ہوچکے ہیں۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ افغان وطن ہر روز دل فگار خبروں کی زد میں رہتا ہے لیکن بعض اوقات اس ملک میں رونما ہونے والے کچھ واقعات بندہ کو دیر تک سوچنے اور رُلانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
پچھلے دنوں مجھے حاجی سید احمد سیلاب کی زبانی ایک ایسی کہانی سننے کو ملی جس کے اوپر خون کے آنسو بہانا بھی میں کم سمجھتا ہوں۔ سید احمد سیلاب ایک ٹی وی ٹاک شو میں مدعو تھے جہاں انہوں نے ایک درد بھرا واقعہ سنایا۔ وہ بتا رہے تھے کہ حال ہی میں ہماری فلاحی تنظیم کے دفتر میں کسی نے بادغیس صوبے کے ایک متاثرہ خاندان کی مجبوری اور کسمپرسی کاحوالہ دیا ۔ ہم امداد کیلئے وہاں پہنچے اور مذکورہ گھر کا دروازہ کھٹکٹایا۔اندر سے ایک خاتون کہنے لگی ، جناب! آپ ذرا اپنا تعارف کرا دیجیے۔
سیلاب فرمارہے تھے کہ میں نے اپنا اور اپنی تنظیم کے بارے میں اسے بتایا ۔ یہ سنتے ہی وہ خاتون رو پڑی اور کہنے لگی ” میں پچھلے تین مہینوں سے آپ لوگوں کی راہ تھک رہی ہوں کہ خدا تمہیں ہماری پُرکرب زندگی سے باخبر کردے”۔ سیلاب کے مطابق اس خاتون نے مجھے اندر آنے سے پہلے اپنا روایتی برقع پہن لیا اور پھر مجھے اندر آنے کا کہا۔میں جب وہاں گیا تو عین دروازے کے قریب میری نظر ایک چھوٹے قبر پر پڑی۔خاتون سے اس قبر کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگی کہ یہ ان کے شہید خاوند کا قبر ہے۔
سیلاب کہہ رہا تھا کہ میرے منہ سے بے اختیار یہ جملہ نکلا” بہن ایک بڑے انسان کا قبر اتنا مختصر اور چھوٹا کیسے ہو سکتا ہے؟ جواب میں اس خاتون نے رونگھٹے کھڑی کرنے والی ایک کہانی سنانا شروع کردی ۔کہنے لگیں کہ کچھ مہینے قبل ان کے ہاں ایک بچہ پیداہوا اور بچے کی پیدائش کو چھ مہینے بیت گئے لیکن مجھے غربت اور محتاجی کی وجہ سے بہتر کھانا نصیب نہیں ہوا۔ گوشت کے ٹکڑے کیلئے میں خود بھی ترس رہی تھی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں بھی ۔
ایک صبح میں نے اپنے شوہر سے منت کیا کہ اگر ممکن ہوسکے تو آج بازار سے کچھ گوشت اور گھی کابندوبست کرلیں ۔ خاوند نے کہا” ٹھیک ہے ، آج میں فلاں تاجر کے ساتھ دیہاڑی کرنے جارہا ہوں، شام کو آپ کیلئے گوشت ، آلو اور گھی لانے کا اہتمام کرلوں گا۔
عورت کا کہنا تھا کہ ان کا خاوند گھر سے نکلا تو فقط دو تین گھنٹے بعد کسی نے ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دی۔میں نے پہلے اپنا پانچ سالہ بیٹا بھیجا کہ جاکر معلوم کرو کہ دروازے پردستک دینے والے کون ہیں؟ بچہ نکلا ، واپس آیا تو خوشی سے اچل رہا تھا اور کہا” امی جان ! باہر دروازے پر ایک آدمی بہت سارے گوشت سمیت کھڑا ہے ۔خاتون کے مطابق میں جونہی دروازے پر پہنچی تو گوشت کی بُو محسوس کی اور سوچا‘ ‘ شکر ہے میرے اور میرے بلکتے بچوں کیلئے گوشت کا اہتمام ہوگیا ہے۔
جب باہر گئیں تو دروازے کے ساتھ کھڑے ایک انجانے آدمی نے مجھے تسلیاں دینا شروع کیں ” بہن ! آپ کا خاوند ابھی کچھ دیر پہلے ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئے اور یہ ان کے شہید جسم کی باقیات ہم لائے ہیں۔ خاتون کا کہنا تھا کہ میں اس وقت حیرت سے پتھر ہوگئی کہ اے میرے مولا! آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ اسی دوران مہینوں سے گوشت کیلئے ترسنے والا میرا نادان بچہ پیچھے سے مجھے کپڑوں سے کھینچ کر تتھیالی زبان سے کہہ رہا تھا ” امی جان ! پہلے مجھے اس گوشت سے ایک ٹکڑا دیدو، میں سیخ کباب بنانا چاہتا ہوں” ۔
حاجی سید احمد سیلاب نے اس پروگرام میں یہ بھی بتایا کہ اس خاتوں کے شہید شوہر کے ذمے کچھ قرض بھی تھا، جس کے بدلے بعد میں ظالم قرض خواہ ان سے ان کی چھ سالہ بیٹی بھی لے گئے۔
یہ صرف افغانستان کے بادغیس صوبے کے ایک خاندان کی دردناک کہانی تھی جو سیلاب جیسے درد دل رکھنے والے کی زبانی ہم تک پہنچی ، غور کیاجائے تو اس جنگ زدہ ملک میں ہزاروں ایسے گھرانے اور بھی ہیں جو نہ صرف مفلوک الحالی کے ہاتھوں زچ ہوگئے ہیں بلکہ اس طویل خون آشام ماحول کے نتیجے میں تین تین ، چار چار حتیٰ کہ اپنے دس دس پیاروں کے جنازے اٹھا چکے ہیں ۔
افغانستان ہمارا وہ ہمسایہ ملک ہے جہاں آج بھی اسلام اور کلمہ طیبہ کے نام پر کلمہ گو مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے ۔ کوئی لاکھ اس قتل عام ، خانہ جنگی اور بیرونی جارحیت کی ذمہ داری امریکہ اور نیٹو کے سر تھوپ دیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اس برادر مسلم ملک کی زبوں حالی اور خون ریزی کی پچہتر فیصد ذمے دار ہماری بے حس سماج اور ہمارے مفاد پرست حکمران ہیں جو صرف نام کی مسلمانی پر اکتفاء کیے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف ہمار وہ مذہبی طبقہ بھی اس ملک کی دربدری میں برابر کا شریک ہے جو یا مذہب کو اب بھی سمجھ نہیں پائے ہیں یا پھر جان بوجھ کر مصلحتوں اور چند مفادات کی خاطر سچ کہنے سے عاجز ہیں۔
کاش ! صداقت ، سچائی اور صلہ رحمی مارکیٹ میں فروخت ہوتی اور ہم اسے اس گئے گزرے اور منافق سماج کیلئے خرید سکتے۔۔۔
♦