کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3784 دن مکمل ہوگئے۔انسان کی ہمت اور استقامت کی کوئ حد نہیں۔
بارش ہو یا برف باری، آندھی ہو یا طوفان ہو، یا شال کی یخ بستہ ہوائیں ہوں۔ ماما قدیر بلوچ سمیت ان تمام جہد کاروں کا بلوچ لا پتہ افراد کی بازیابی تک کیمپ میں رہنا بلوچستان اور دنیا کی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ ماما قدیر پاکستان میں سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے ریاستی جبری گمشدہ افراد کے لیے آواز اٹھائ اور تحریک کا آغاز کیا۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے لمبا پیدل مارچ بھی کیا۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان کیونکر خون میں لت پت، قتل و غارت اور ظلم و ستم کے ہچکولے کھانے پر مجبور ہے، آج اس وادی میں لوگوں کو دکھیلنے اور یہ حالات پیدا کرنے والے کون ہیں اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا۔
بلوچستان اگرچہ روز اول سے نا انصافیوں اور محرومیوں کا گھررہا ہے لیکن اس ظلم و ستم میں گذشتہ دو دہائی کے عرصے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو ہنوز جاری ہے جہاں پورے بلوچستان میں چادر و چار دیواری کو پامال کرکے ظلم و جبر کا بازار گرم کیا گیا ہے جس کو ہر آنکھ دیکھنے کی تاب نہیں رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات پر انسانی حقوق کے رکھوالے یا ہمدرد نظر نہیں آتے ہیں جو انسانیت اور انسانی حقوق کے دعویدار ہے، بلوچ قوم کا خون سب سے سستا ہوچکا ہے، ہر طرف خون ہی خون نظر آرہا ہے جس کے باعث یہاں باسی ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں بلوچستان کے حالات کو اس حد تک لانے میں خود حکمران اور عسکری ادارے ملوث رہے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کئی سالوں سے ہم لاپتہ افراد کے لیے احتجاج کررہے ہیں لیکن عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے ہماری طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی لیکن ہم کسی قسم کے بھی حالات میں اپنی مدد آپ کے تحت آواز اٹھاتے رہینگے۔
بلوچستان پوسٹ/ویب ڈیسک