Photo: The Guardian
عثمان غازی
ایران کے 100 سے زائد شہروں میں مرگ بر خامنہ ای کے گونجتے نعرے ایک نئے سویرے کا پتہ دے رہے ہیں، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج ایک تحریک بن چکا ہے، 2009 کے احتجاج میں ایرانی طلبہ نے سوال کیا تھا کہ ہمارا ووٹ کہاں ہے مگر اس بار کوئی سوال نہیں ہے بلکہ “خامنہ ای تیری موت ہو” کے فلک شگاف نعرے ہیں۔
جس طرح آل سعود نے سعودی عرب کے عوام کو مذہب کے نام پر یرغمال بنایا ہوا ہے، بالکل اسی طرح مذہب کے نام پر ایرانی ملاؤں نے ایران کے عوام کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے، احتجاج کا آغاز گزشتہ جمعے کو اس وقت ہوا جب ایرانی سرکار نے پیٹرول کی قیمتوں میں لگ بھگ 300 فیصد تک اچانک بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اضافہ کردیا، جس کے بعد پورا ایران مذہبی رجیم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔
دو سو 200 سے زائد مظاہرین کو ایران کی مذہبی پولیس شہید کرچکی ہے، ہزاروں گرفتار ہیں، سینکڑوں بینک نذرآتش کردئیے گئے ہیں، ملک بھر میں پہیہ جام ہے، ایران کے ملا سمجھتے ہیں کہ وہ کھانا پینا بند کرکے مظاہرین کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کردیں گے مگر ظالم کے خلاف بھوک پیاس میں لڑنا تو درسِ کربلا ہے اور ایرانیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مولا حسین کی کیا روایات ہیں۔
اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے ایرانی ملاؤں نے پانچ دنوں سے انٹرنیٹ بند کیا ہوا ہے، مذہبی پولیس کے غنڈے مظاہرین کا قتل عام کرتے پھررہے ہیں، آپ سے دنیا کے کسی بھی عقیدے کے مذہبی انتہاپسند جب بھی مذہبی نظام کے قیام کی بات کریں گے تو بتائیں گے کہ ان کے مذہبی نظام کا اپنا ایک اقتصادی نظام ہے جبکہ یہ سفید جھوٹ ہوتا ہے، تمام مذاہب کے انتہاپسند سرمایہ دارانہ نظام کے پیروکار ہوتے ہیں اور کیپٹل ازم کو زبردستی مذہب کا لبادہ پہناتے ہیں، ایران میں بھی یہی مسئلہ ہے، یہ سرمایہ دارانہ مذہبی ریاست ہے جس کا کام ہی عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ایران کی مذہبی حکومت کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای شاہ ایران سے زیادہ دولت مند ہیں اور موصوف کے کل اثاثوں کی مالیت 200 ارب ڈالر ہے، رائٹرز نے 2013 میں علی خامنہ ای کے 95 ارب ڈالر کے اثاثے دریافت کئے تھے، ایران کے عوام کا پیسہ صرف چار فیصد سرمایہ دار ملاؤں اور ان کے کاسہ لیسوں کے ہاتھ میں ہے اور 80 فیصد ایرانی عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں، ایرانی پارلیمان کے رکن ہدایت اللہ خادمی نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ غربت کا یہ عالم ہے کہ ایرانی اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہیں۔
ایران میں ڈاکٹر علی شریعتی کے سرخ انقلاب کو امریکی مدد سے اغوا کرکے اسے مذہبی انقلاب میں بدلنے والے ایرانی ملا آل سعود کی طرح سفاک اور بے رحم ہیں، سعودی عرب اور ایران مذہبی حکومتوں کی عبرت ناک مثالیں ہیں جن کا فسوں ٹوٹ رہا ہے، مذہبی غلامی میں جکڑا ایران ایک بار پھر مزاحمت کررہا ہے جس کو ناکام بنانے کے لئے ایرانی مذہبی ڈکٹیٹرشپ مظلوم عوام پر یزید لعین کی طرح ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
♦