مشتاق گاڈی
جرمن فلاسفر ویلیئم ہیگل کہتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دو طرح سے دہراتی ہے ۔ کارل مارکس اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو ایک بار المیہ اور دوسری بار فریب کی شکل میں دہراتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ فلسفیانہ باتیں کتنی درست ہیں؟ لیکن ایک بات کا مجھے یقین ہے کہ تاریخ میں جو ملتے جلتے کردار ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پنجاب کی تاریخ میں آدینہ بیگ اور نواز شریف کے ایک جیسے کردار ہیں۔
دونوں شخصیات کی سوانح حیات کی ذرہ سی جانکاری سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اقتدار کے لئے کس طرح رشوت، سفارش اور سازش کو بے رحمی اور بے اصولی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور کیسے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ پنجابی سماج میں کس طرح طاقت کا کوئی روایتی قاعدہ قانون نہیں چلتا اور افراتفری اور گھس بیٹھیا پن اس کی امتیازی خصوصیت ہے۔
آئیے ! ان دو کرداروں کی مختصر جانچ کرتے ہیں۔
آدینہ بیگ کا جنم 1710 میں لاہور کے ایک قصبے شرق پور میں ہوا۔ کم عمری میں ہی وہ جالندھر چلا گیا اور وہیں پلا بڑھا ۔ پہلے فوج میں بھرتی ہوتا ہے ۔ فوج سے نکل کر جالندھر دو آب کے ضلع سلطان پور کی ایک بستی کا پٹواری بن جاتا ہے ۔ تھوڑے عرصے بعد ایک ہندو بنیئے شری نواس دھر سے الیک سلیک بڑھاتا ہے اور اس کی سفارش سے لاہورکے مغل صوبیدار ذکریا خان بہادر کی جانب سے پورے ضلع سلطان پور کا فوج دار تعینات ہو جاتا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب مغل راج کا سورج زوال پذیر تھا ۔ پنجاب میں گرو گوبند کی موت کے بعد سکھوں کی مغل شہنشاہت کے ساتھ جنگ بڑھ رہی تھی، دہلی مرہٹوں کے رحم و کرم پر تھا۔ پنجاب اور ہندوستان پر نادرشاہ درانی اور بعدازاں احمد شاہ ابدالی کے حملے تواتر سے ہو رہے تھے۔
آدینہ بیگ ایک طرف بے پناہ دولت اکھٹی کرتا ہے اور دوسری طرف حصول اقتدار کے لئے ہر حربہ استعمال کرتا ہے ۔ اس کے من میں بس ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے وہ لاہور صوبہ کا حاکم بن جائے۔
اس مقصد کے لئے وہ مغلوں کے ساتھ مل کر سکھوں کا قتل عام کرتا ہے۔ پھر سکھوں کی حمایت سے مغلوں اور افغانوں کے خلاف لڑتا ہے ۔ پھر افغانوں مغلوں کی جنگ کرواتا ہے ۔ دوسری طرف مذہب کا استعمال کرتے ہوئے پنجابی مسلمانوں کو سکھوں اور ہندوؤں کے خلاف استعمال کرتا ہے ۔ مرہٹوں کی مالی معاونت کر کے ملتان پر چڑھائی کرواتا ہے ۔ آدینہ بیگ کی زندگی کی ایک طویل کہانی ہے۔ اور اس کہانی سے بس ایک ہی سبق ملتا ہے کہ دھن دولت اور اقتدار ہی اس کا دین ایمان تھا۔
اس کے نزدیک دولت اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے جو بے اصولی اور بے رحمی کرنی پڑے سب جائز ہے۔ اور اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ 1757 میں وہ لاہور صوبے کا حاکم بن جاتا ہے۔ کچھ مہینے بعد بیماری کے باعث فوت ہوجاتا ہے۔
نواز شریف کی کہانی آج کے عہد کی کہانی ہے۔ یہ بھی ایک ایسے کردار کی کہانی ہے جو دھن دولت اور حصول اقتدار کے لئے کوئی بھی روپ دھار سکتا ہے ۔ اس کی میکاولئین سیاست میں بے رحمی اور بے اصولی ہی اس کی قوت ہے ۔ جنرل جیلانی کو رشوت دینا ، جنرل ضیاء الحق کا روحانی بیٹا بن جانا، جنرل درانی، حمید گل اور اسلم بیگ کے ساتھ سازباز کر کے بے نظیر بھٹو کے خلاف کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنا۔ ریاستی طاقتوں کے ساتھ ٹکراؤ اور جمہوریت پسندی کا لبادہ اوڑھنا، اے آر ڈی بنا کر جنرل مشرف سے معاہدہ کرنا اور ملک سے بھاگ جانا ، بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا اور پھر اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چوہدری افتخار کی تحریک کا سرخیل بن جانا، میموگیٹ میں کالا کوٹ پہننا، ریاستی طاقتوں سے ساز باز کر کے 2013 کے دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے تیسری بار وزیراعظم بن جانا، پھر سویلین بالادستی کا نعراہ لگا کر انہیں ریاستی طاقتوں سے ٹکراؤ، عدالتی مقدمہ کا سامنا کرنا، سزا یافتگی اور بعدازاں نئی ڈیل ڈھیل کی گونج میں علاج کی غرض سے انگلینڈ چلے جانا۔
آدینہ بیگ اور نواز شریف کے ایک جیسے کرداروں کے پیچھے جہاں ان کے کردار کی بے اصولی اور بے رحمی جھلکتی ہے، وہاں یہ اپنی اپنی مخصوص تاریخ کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی پہلے کا سوال یہ ہے کہ ایسے کردار سندھ، بلوچستان، پختونخوہ، سرائیکی وسیب میں کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اس کا جواب پھر کبھی ۔۔۔
مترجم : عباس ڈاہر۔ ضلع راجن پور، صحافی ، کالم نگار ، سرائیکی نیشنلسٹ