محمد شعیب عادل
ماہر معاشیات عاطف میاں کا پاکستان کے معاشی بحران سے متعلق ایک تجزیہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر ایک ہوائی جہاز بار بار ٹیک آف کرنے کے بعد کریش ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا ڈیزائن خراب ہے۔
عاطف میاں پاکستان کی اشرافیہ کو معاشی بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو ٹیکس چوری کرتی ہےاور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے کسی بھی معاشی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔وہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو بھی دگرگوں معاشی صورتحال کا ذمہ دار سمجھتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں سے فوجی اور سیاسی حکومتوں کی جانب سے مذہبی انتہا پسندوں کی سرپرستی نے سماج کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ہزاروں افراد قتل ، کئی کمیونٹیز دربدر اور لاکھوں افراد ملک چھوڑ گئے ہیں۔عاطف میاں لکھتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسی دلیر لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو مذہبی انتہا پسندوں سے نمٹ سکے لیکن شاید کوئی بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔
عاطف میاں عالمی سطح پر ایک جانے پہچانے اکنامسٹ ہیں ۔ پاکستانی عوام نے پہلی دفعہ ان کا ذکر عمران خان کے منہ سے اس وقت سنا جب وہ وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ پاکستان کی اکانومی کو درست کرنے کے لیے عاطف میاں کو اپنا مشیر مقرر کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
بہرحال وزیراعظم سیلیکٹ ہونے کے بعد انھوں نے عاطف میاں کی بطور اکنامک ایڈوائزر تقرری کر دی چونکہ ان کا تعلق احمدی فرقے سے ہے اس لیے ان کی شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ پاکستانی بھی بڑے مخولیے ہیں ان کہنا تھا کہ پہلے ہی پاکستان کا مالک ایک احمدی ہے اور اب ماہر معاشیات بھی احمدی رکھ لیا ہے ، اس لیے یہ ہمیں قبول نہیں۔ جس پر وزیراعظم نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
اگر عاطف میاں ایڈوائزر کے طور پر اپنا کام شروع بھی کردیتے تو چند ماہ بعد انھوں نےحالات سےسمجھوتہ کر لینا تھا یا مستعفی ہوجانا تھا کیونکہ پاکستان کا معاشی بحران جس سطح پر پہنچ چکا ہے اس کو درست کرنا ایک ماہر معاشیات کے بس کی بات نہیں۔پاکستانی ریاست کا مسئلہ معاشی سے بڑھ کر سیاسی ہے۔پاکستانی ریاست کو فوجی تسلط سے آزاد ایک مستحکم جمہوری نظام کی ضرورت ہے ۔
چند ماہ پہلے پاکستان کے ممتاز ماہر معاشیات، اکبر زیدی ااور قیصر بنگالی کراچی میں ایک مذاکرے میں اس بات کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق بنگلہ دیش معاشی طور پر پاکستان سے اس لیے آگے نکل گیا ہے کہ ایک تو انھوں نے فوج کی چھٹی کراد ی ہے، دوم آئین کو سیکولر بنایا اور سوم عورتوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی ہے۔(تفصیل کے لیے درج ذیل لنک کو کلک کریں)۔
پاکستان کی زبوں حال معیشت کی ذمہ دار پاکستان کے دفاعی اخراجات اور ریاستی وسائل پر قابض سیکیورٹی ٹولے کی مہم جوئیاں ہیں۔ بجٹ میں مختص تعلیم و صحت سمیت ترقیاتی منصوبوں کی رقوم بھی بالاخر دفاعی اخراجات کی نذر ہوجاتی ہیں۔پھر معاشی صورتحال کو سنبھالنے کے لیے جو بیرونی قرضے لیے جاتے ہیں وہ کسی معاشی سرگرمی میں استعمال ہونے کی بجائے غیرپیداواری سرگرمیوں جیسے حکومتی اخراجات پر صرف ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اگلے سال پھر قرضے کے لیے کشکول اٹھا لیتے ہیں اور سود کی مدد میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
عاطف میاں بخوبی جانتے ہوں گے کہ پاکستانی ریاست کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ بناتی ہے۔ان پالیسیوں کی بدولت تمام وسائل جنگجو کاروائیوں کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ عاطف میاں جانتے ہوں گے کہ ایک آزاد جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ ہماری سیکیورٹی ایسٹبشلمنٹ کو قبول نہیں کیونکہ وہ ان کی کارگردگی اور اخراجات پر سوال اٹھاتی ہے۔جمہوری حکومت جنگجو مہم جوئیوں کی بجائے ہمسایوں سے دوستی اور تجارت کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں شروع ہو سکیں۔
پاکستان کی سابقہ جمہوری حکومتوں کا یہی جرم ہے کہ وہ دفاعی اخراجات کم کرنا چاہتی ہیں، شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کرکے ہمسایہ ممالک سے دو طرفہ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جنہیں بندوق والے برطرف کردیتے ہیں۔پاکستان کے عوام کی خوشحالی اس وقت ممکن ہے جب پاکستانی ریاست ہمسایہ ممالک سے نہ صرف دوستی بلکہ دوطرفہ تجارت کو ممکن بنائے۔
جب تک ایسے اقدامات نہ اٹھائے گئے ،پاکستان اور اس کے عوام کبھی معاشی طور پر خوشحال نہیں ہو سکتے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی فوج کا سائز کم کیاجائے، دفاعی اخراجات کم کیےجائیں اور مہلک ہتھیاروں کو تلف کیا جائے۔
عاطف میاں کا مضمون پڑھنے کے لیے درج لنک کو کلک کریں
https://www.nytimes.com/2019/12/10/opinion/pakistan-economy.html