الوداع سیربین الوداع۔
مجھ کو شاعرنہ کہومیرکہ صاحب میں نے، دردوغم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
تین دسمبر 1965کو جب مجھے پہلی بار بی بی سی اردو سروس کے مائیکرو فون کے سامنے آنے کا موقع ملا تو اُس وقت حالاتِ حاضرہ کا پروگرام سیربین شروع نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت دس منٹ کی خبروں کے بعد حالات حاضرہ کے بار ے میں پانچ منٹ کا، تبصرہ نشر ہوتا تھا۔
اُس زمانہ میں اردو سروس، پاکستان سروس کہلاتی تھی، اس کے سربراہ جو آرگنایزر کہلاتے تھے، ایل وی ڈین تھے۔ ایل وی ڈین ہندوستان میں پولیس محکمے سے تعلق رکھتے تھے اور وطن واپس آنے سے پہلے امرتسر میں سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدہ پر فایز تھے۔ ڈین صاحب کسی طور پرانے پولیس افسرمعلوم نہیں ہوتے تھے، بلکہ براڈکاسٹنگ کے شعبہ میں ان کی صلاحیت پر سب کو بے حد تعجب ہوتا تھا ۔ایک اور خاص بات ان کی یہ تھی کہ وہ بہت جلد ہر شخص کی صلاحیت کو پرکھ لیتے تھے اور اس پر بلا کا بھروسہ کرکے اسکے ذمہ کام سونپ کر اس میں مداخلت بالکل نہیں کرتے تھے۔ ان کایہ خاص انداز تھا کارکنوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے کا۔
مجھے یاد ہے کہ جنوری1966کے آخر میں ایوب خان تاشقند سمجھوتے کے بعد لندن کے راستے امریکا جارہے تھے۔ وہ اتوار کے دن لندن سے گذرنے والے تھے۔ ڈین صاحب نے سنیچر کی شام کو مجھے بلا کر کہا کہ تم اپنے اخبار جنگ کے لئے ایوب خان کی پریس کانفرنس کور کرنے لندن ایرپورٹ جاو گے، مجھے خوشی ہوگی کہ تم اس بارے میں ایک رپورٹ ہمارے لئے بھی نشر کر دینا۔
مجھے تعجب ہوا کہ ڈین صاحب نے مجھ پر اتنا اعتماد کیا کیونکہ میں نے اس سے پہلے صرف تین چار بار ہی پروگرام میں حصہ لیا تھا۔ بہرحال میں نے لندن ایرپورٹ سے بش ہاوس آکر ایوب خان کی پریس کانفرنس کی رپورٹ نشر کی، کسی نے نشر ہونے سے پہلے نہ یہ رپورٹ دیکھی اور نہ اس کی جانچ پڑتال کی ۔مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ دوسرے روز ڈین صاحب نے میری رپورٹ کی تعریف کی۔
آزادی سے پہلے بی بی سی کی اردو سروس ہندوستانی سروس کہلاتی تھی۔ تقسیم کے بعد یہ سروس بھی ہندوستانی اور پاکستان سروس میں تقسیم ہوگئی اور پاکستان سروس کا آغاز ۳ اپریل 1949کو ہوا ، اُس وقت سے 1965کے وسط تک سارا زور ڈراموں پر تھا۔ اُس زمانے میں سننے والوں کو برطانوی زندگی سے روشناس کرانے کے لئے کلاسیکی انگریزی ادب کے ڈرامے اردو قالب میں ڈھال کر پیش کئے جاتے تھے۔ و ہ زمانہ ڈراموں کے لحاظ سے پاکستان سروس کا سنہری دور تھااور اس کا سہرایاور عباس، اعجاز بٹالوی، منیب الرحمان ضیا محی الدین عطیہ حبیب اللہ اور حفیظ جاوید کے سر ہے۔
اُس زمانہ میں پاکستان سروس کا تمام تر دارومدار اُ ن نوجوانوں پر تھا جو اعلی تعلیم اور بیرسٹری کے لئے لندن آئے تھے اور اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ بی بی سی کے پروگراموں میں حصہ لیتے تھے ، ڈراموں کے سلسلہ میں یہ نوجوان بی بی سی کے لئے من و سلوی ثابت ہوئے۔جب ان میں سے بہت سے نوجوان تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس چلے گئے تو اس خلا کو صحافیوں نے پُر کیا اور ویسے بھی اس زمانہ میں عالمی حالات کے ساتھ بر صغیر کے حالات تغیر پذیر تھے۔
پاکستان سروس میں اس زمانہ میں شامل ہونے والے صحافیوں میں سر خیل سید اطہر علی تھے جنہوں نے حالات حاضرہ کا پروگرام ریڈیو نیوز ریل شروع کیا اور 1968میں ممتاز صحافی سید راشد اشرف کے ساتھ مل کر مقبول ترین پروگرام سیربین شروع کیا۔سید راشد اشرف ریڈیو کے ساتھ ٹیلی وژن میں بھی گہرا تجربہ رکھتے تھے۔ بلا شبہ سید اطہر علی کی آمد کی بدولت بی بی سی اردو سروس میں حالات حاضرہ کے پروگراموں کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
گو میں اس زمانہ میں لندن میں جنگ گروپ کے اخبارات کا نامہ نگار تھا لیکن یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں شروع سے سیربین سے وابستہ رہا۔میں چونکہ بی بی سی کے کلُ وقتی عملہ میں شامل نہیں تھا اس لئے سنیچر اور اتوار کو مجھے آوٹ سایڈ کنٹریبوٹر یا کی حیثیت سے سیر بین پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ حیثیت میرے لئے دہری بار آور ثابت ہوئی۔ جنگ کے نامہ نگار کی حیثیت سے میں جہاں جہاں گیا وہاں سے سیربین کے لئے رپورٹس بھیجیں جن میں پیرس میں ویتنام امن کانفرنس، فرانس میں طلبا کی شورش، دولت مشترکہ کے سربراہوں کی کانفرنس اور رباط میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس نمایاں تھیں۔
اُس زمانہ میں دو اہم واقعات کے موقع پر سیر بین پیش کرنے کی یاد اب بھی تازہ ہے۔4 جولائی 1977کو صبح سویرے اردو سروس کے سربراہ ڈیوڈ پیج نے ٹیلیفون کیا اور کہا کہ پاکستان میں مارشل لا نافذ کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قیاس آرائیاں ہیں کہ مارشل لا ذوالفقار علی بھٹو کی ایما پر نافذ کیا گیا ہے تاکہ ملک میں ہڑتالوں اور گڑبڑ کا جو سلسلہ جاری ہے اس پرفوج کے ذریعہ قابو پایا جا سکے۔ میں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ قیاس آرائیاں درست ہیں کیونکہ یہ حالات بڑے منظم طور پر خود جنرل ضیا اور فوج کی ایما پر بھڑکائے گئے ہیں تاکہ فوج اقتدار پر قبضہ کر سکے۔
بہرحال یہ طے ہوا کہ سیربین میں صورت حال کا بھرپور جایزہ لیا جائے گا۔ مارک ٹلی دلی سے اسلام آباد پہنچ گئے تھے جہاں سے انہوں نے تازہ ترین صورت حال پر رپورٹ بھیجی۔ دوسرا اہم واقعہ بھٹو صاحب کی پھانسی کا تھا۔اس وقت بھی مارک ٹلی راولپنڈی میں تھے وہاں سے انہوں نے تفصیلی رپورٹ بھیجی اورسندھ میں رد عمل کے بارے میں اقبال جعفری اور دوسرے نامہ نگاروں نے تفصیلات بھیجیں۔
جنوری 1983 میں جنگ لندن کے ایڈیٹر کے عہدہ سے مستعفی ہونے کے بعد بی بی سی نے مجھے کل وقتی پروڈیوسر کی حیثیت سے اردو سروس میں شامل ہونے کی پیشکش کی جو میرے لئے اعزاز کی بات تھی۔ بی بی سی کے عملہ میں شمولیت کے بعد میں بڑی باقاعدگی سے سیربین پیش کرنے پر مامور ہوا۔ اس دوران اہم واقعات پر سیر بین پیش کرنے کی یادیں میرے ذہن پر اب بھی نقش ہیں۔
سنہ 1984میں اندرا گاندھی کا قتل،جس کے بارے میں دلی سے ستیش جیکب کی رپورٹ اور مارک ٹلی کے تجزیہ اور دوسرے نامہ نگاروں کی رپورٹس کی مدد سے پیش کردہ تفصیلی سیربین کی بی بی سی کی انتظامیہ کے ساتھ سامعیں نے تعریف کی۔ اور پھر سات سال بعد ان کے صاحب زادے راجیو گاندھی کے جنوبی ہند میں قتل کے بارے میں تمام تفصیلات اور تجزیوں کے ساتھ سیربین کو آراستہ کیا۔ 6 دسمبر 1992کا وہ سیربین بھی اب تک یاد ہے جب ایودھیا میں ہندوکار سیوکوں نے بابری مسجد مسمار کی۔ مارک ٹلی اور ستیش جیکب وہیں موجود تھے جہاں کچھ عرصہ کے لئے دونوں پولیس کی تحویل میں بھی رہے تھے۔ایک عجب ہنگامہ خیز دن تھا وہ۔
سیر بین کے اکیاون سالہ طویل سفر میں حالات کی تبدیلیوں کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی نے زبردست مدد کی۔ شروع میں نامہ نگاروں کے مراسلوں کے ترجموں کا سہارہ لینا پڑتا تھا۔ پھر نامہ نگاروں کی لائین پر ریکارڈ کرائے گئے مراسلوں اور پھر ان سے براہ راست گفتگو اور انٹرویوز نے سیربین کو معتبری اور مقبولیت سے ہمکنار کیا۔ دلی میں مارک ٹلی اور ستیش جیکب، کراچی میں پہلے اقبال جعفری اور بعد میں ادریس بختیار اور اسلام آباد میں محمد غیور اور ظفر عباس پشاور میں رحیم اللہ یوسف زئی اور ہارون رشید اور حیدرآباد سندھ میں علی حسن نے اپنے روابط اور تجربات سے سیر بین کو فیض یاب کیا۔ اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں نامہ نگاروں کا جال بچھ گیا۔
سیربین کی مقبولیت کی دو بڑی وجوہ رہی ہیں۔ اول، بی بی سی کے اس اصول کو بھر پور طریقہ سے اور تندہی سے ملحوظ خاطر رکھا گیا کہ کوئی خبر اس وقت تک نشر نہ کی جائے جب تک دو ذرائع سے تصدیق نہ ہو جائے۔مجھے سترہ اگست کا وہ دن یاد ہے جس دن جنرل ضیا کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ یہ خبر سر شام ہی آگئی تھی لیکن یہ خبر سیربین میں اس وقت تک نشر نہ کی گئی جب تک اسلام آباد سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔
اُس زمانہ میں سب سے پہلے خبر نشر کرنے کا آج ایسا جنونی مقابلہ نہیں تھا، دوم، اس دوران جب پاکستان میں اطلاعات کے ذرایع پر حکومت کا کنٹرول تھا او رخبروں کی تاریکی کا چار سو دور دورہ تھا، پاکستان میں ریڈیو سننے والے عوام کے لئے عالمی واقعات اور خود اپنے ملک کے حالات کے بارے میں باخبر رہنے کا واحد ذریعہ سیربین تھا۔
میں جب سیر بین پیش کرنے کے لئے مایک کے سامنے آتا تھا تو مجھے ایک اہم ذمہ داری کا احساس ہوتا تھا اور یک گونہ طمانیت بھی کہ میں پاکستان کے عوام کو ان کے حالات سے باخبررکھنے کا فرض انجام دے رہا ہوں اور انہیں آگہی کی روشنی سے سرشار کر رہا ہوں۔
اس کی تصدیق ہر ہفتہ اس وقت ہوتی تھی جب آڈینس ریسرچ کی شمع حسن سامعین کی تعریفوں کے ڈھیر سارے خطوط سے لدھی پھندی اردو سروس آتی تھیں۔ان تعریفی خطوط میں دو باتیں بہت نمایاں ہوتی تھیں ایک متوازن انداز سے عالمی صورت حال اور بر صغیر کے حالات سے آگہی اور دوم زبان کی تعریف۔ بہت سے سامعین اس پر طمانیت کا اظہار کرتے تھے کہ سیر بین اور دوسرے پروگراموں سے ہمیں اردو ازبان سیکھنے کا موقع ملتا ہے خاص طور پر اردو کا صحیح تلفظ۔
میری یہ خوش نصیبی ہے کہ براڈ کاسٹنگ کے بارے میں ممتاز اور منفرد براڈکاسٹر آغا اشرف نے جو 1939سے 1943تک بی بی سی ہندوستانی سروس سے لندن سے آداب عرض کے عنوان سے پروگرام نشر کرتے تھے،مجھے ایک گراں قدر ُگر سکھایا تھا۔ سن پچاس میں آغا اشرف صاحب سے جب وہ کراچی میں اقوام متحدہ کے دفتر اطلاعات کے سربراہ تھے میں نے ایک ملاقات میں ان سے پوچھا تھا کہ سامعین میں ان کی مقبولیت کا کیا راز تھا۔
آغا اشرف صاحب نے جواب دیا کوئی راز نہیں۔ بہت آسان طریقہ تھا۔ میں جب بھی مایک کے سامنے آتا تو میں یہ بات ذہن میں رکھتا تھاکہ میں اپنے دوست یا عزیز سے مخاطب ہوں اور اس سے دنیا اور اپنے اردگرد کے حالات کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ آغا صاحب کے اس گُر پر میں نے ساری عمر عمل کیا اور جب بھی میں مایک کے سامنے آیا تو میں نے یہی سوچا کہ میں اپنی امی سے بات کر رہا ہوں جو بی بی سی بے حد باقاعدگی اور شوق سے سنتی تھیں اور دنیا بھر کی خبروں سے گہری دلچسپی رکھتی تھیں۔پروگرام پیش کرنے والے اور سننے والے کے درمیان یہ قریبی تعلق ہی نشریاتی اعجاز ہے۔
مجھے سیربین کی بے پناہ مقبولیت کا احساس اس وقت ہوا جب میں 1994میں برلن میں شارلٹن برگ کی ایک گلی سے گذر رہا تھا۔ میں نے اوپر ایک فلیٹ سے سیربین کی اس خاص ٹیون کی آواز سنی جو ستیہ جیت رے کی فلم پاتر پنچلی میں روی شنکر کی موسیقی کے ایک ٹکرے سے لی گئی تھی۔ سیربین کی یہ شناختی موسیقی سنتے ہی میں بے ساختہ اوپر گیا اور فلیٹ کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ دیکھا تو سامنے ایک نوجوان جرمن خاتون کھڑی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ بی بی سی کا پروگرام سیربین سن رہی تھیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”جی ہاں۔ ہم ہی سن رہے تھے۔ اور ہم ہر شام کو یہ پروگرام بلا ناغہ سنتے ہیں، جناب۔بہت اچھا ہوتا ہے یہ پروگرام اور دنیا بھر کی خبروں سے ہم باخبر رہتے ہیں ۔“ میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ اتنی اچھی اردو کہاں سیکھی۔ کہنے لگیں۔ ”ہم کئی برس پہلے سیتا پور اتر پردیش میں بیاہے تھے اور وہیں ہم نے اردو سیکھی، بہت پیاری زبان ہے“۔
یہ سن کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔اور میر کا یہ شعر دیر تک میرے ذہن میں گونجتا رہا۔
گلیوں میں اب تلک بھی مذکور ہے ہمارا،،،افسا نہَ محبت مشہور ہے ہمارا۔