راولپنڈی کے لیاقت باغ میں آج پاکستان پیپلز پارٹی نے جہاں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا وہیں ملک کے کئی حلقوں میں پارٹی کی مقبولیت، بے نظیر کی ہلاکت اور پارٹی کی کرپشن کے حوالے سے بھی بحث گرم رہی۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی 12ویں برسی کے موقع پر لیاقت باغ میں سجے پنڈال اور اس کے اردگرد موجود پی پی پی کے رہنماؤں اور کارکنان کا کہنا ہے کہ پی پی پی ایک بار پھر تیزی سے عوام میں مقبول ہورہی ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ پی پی پی اپنے کرپشن، بد عنوانی، نا اہل انداز حکمرانی اور اپنے سیاسی نظریے سے ہٹنے کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہوگئی ہے۔ ناقدین کے مطابق اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کر ے۔
پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے پروردہ میڈیا نے پی پی پی کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اس نے مالی بد عنوانی کو فروغ دیا اور عوامی مسائل کو نظر انداز کیا۔ اور پارٹی قیادت پر یہ الزام بھی لگا تے ہیں کہ اس نے بے نظیر کے قاتلوں کو سرگرمی سے تلاش نہیں کیا اور آج ان کی برسی کے موقع پر بھی نہ صرف قاتل آزاد ہیں بلکہ قانون کے شکنجے میں بھی نہیں ہیں۔
تاہم پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر اس بات سے سخت اختلاف کرتے ہیں۔ ”جو ناقدین یہ کہتے ہیں کہ ہم نے بی بی کے قاتلوں کو نہیں پکڑا، وہ شاید اخبار بھی نہیں پڑھتے اور ہمارے بارے میں انتہائی ناقص معلومات رکھتے ہیں۔‘‘ تاج حیدر کے بقول ”حقیقت یہ ہے کہ ہم نے سارے قاتلوں کو پکڑا تھا لیکن عدالت نے انہیں رہا کر دیا۔ یہاں تک کہ ان ملزموں کو بھی رہا کیا گیا جنہوں نے اعترافی بیانات دیے تھے۔ ہم نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہوئی ہے، جس کی ابھی تک سماعت نہیں ہوئی۔ تو نا انصافی تو ہمارے ساتھ ہوئی ہے‘‘۔
تاج حیدر نے اس الزام کو بھی رد کیا کہ پی پی پی کرپشن میں ملوث ہے۔ ”نااہل طرز حکمرانی ہماری سندھ میں عیاں ہونی چاہیے۔ اگر ہم وہاں کرپشن کرتے یا عوامی مسائل حل نہ کرتے تو ہمیں وہاں کیا بار بار ووٹ ملتے۔ عجیب بات ہے کہ ہم عوام کے مسائل حل نہیں کر رہے لیکن پھر بھی عوام ہمیں منتخب کر رہے ہیں۔ تو یہ کرپشن کا الزام بے بنیاد ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
جلسے میں موجود پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے سرگرم کارکن الطاف بشارت کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے ساتھ ہمیشہ ظلم کیا گیا ہے۔ ”ہم پر مظلوم بننے کا ڈھونگ رچانے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ پہلے ہمارے لیڈر کو شہید کیا گیا، پھر بی بی کو شہید کیا گیا۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے خلاف سازشیں کیں اور کئی مواقعوں پر سامراجی قوتوں نے بھی پارٹی کے خلاف سازشیں کیں۔ ہمارے مینڈیٹ کو چوری کیا گیا۔ ہمارے خلاف آئی جے آئی بنوائی گئی۔‘‘
الطاف بشارت کا مزید کہنا تھا کہ پی پی پی مظلومیت کے بیانیے پر نہیں بلکہ اپنے پروگرام پر کھڑی ہے۔ ”آج کے اس جلسے میں کم از کم پچاس ہزار افراد موجود ہیں۔ عوام کا جم غفیر آپ کمیٹی چوک سے یہاں تک دیکھ لیں۔ اگر پہلے بلاول کا راستہ نہ روکا جاتا اور پارٹی کے خلاف انتہا پسند اور اسٹیبلشمنٹ سازشیں نہیں کرتے تو ہم آج بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہوتے۔ لیکن ہم اب بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اس ہی طرف جارہے ہیں کیونکہ پی پی پی کے علاوہ اس ملک کے کسانوں، مزدورں اور غریبوں کے مسائل کوئی حل نہیں کر سکتا‘‘۔
اس موقع پرپارٹی کے کچھ نظریاتی کارکنان کا خیال ہے کہ پارٹی کا ‘پروپیگنڈہ سیل‘ بہت کمزور ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ پارٹی سن 2013 اور 2018ء کے انتخابات میں اپنے کارناموں سے عوام کو آگاہ نہیں کر سکی۔ پارٹی کے نظریاتی کارکن سجاد مہدی کا کہنا تھا کہ پارٹی نے اپنے دور حکومت میں بہت سے شاندار کام کیے۔ “ہم نے اٹھارویں ترمیم پاس کرائی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایک سو پچیس فیصد اضافہ کیا۔ پانچ لاکھ سے زائد روزانہ اجرت پر کام کرنے والے اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کیا۔ لیکن بد قسمتی سے پارٹی ان کارناموں کو عوام میں مقبول نہیں کر سکی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسی حکومت وجود میں آئی جس نے پہلے نواز شریف کی شکل میں لوگوں کو بے روزگار کیا اور اب عمران خان کی شکل میں مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان لے کر آرہی ہے‘‘۔
DW/Web Desk