پاکستان کی خصوصی عدالت نے سابق پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ تین رکنی عدالت نے یہ سزا سابق صدر کو سنگین غداری مقدمے میں سنائی ہے۔
سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے دائر کر رکھا تھا۔ تین رکنی عدالت نے ایک مختصر فیصلے میں سزا کا اعلان کیا اور کہا کہ تفصیلی فیصلہ دو دنوں میں جاری کیا جائے گا۔۔ فیصلہ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سنایا۔
اس عدالتی فیصلے میں ایک جج نے اپنا اختلافی نوٹ بھی لکھا اور بقیہ دو ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا۔ عدالت کے مطابق سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ملکی دستور کی شق چھ کے منافی عمل کرنے کا الزام ثابت ہو گیا ہے۔
پرویز مشرف کو سنگین غداری کے مقدمے میں دسمبر 2013 میں نامزد کیا گیا تھا۔ اُس وقت نواز شریف منصب وزارت عظمیٰ پر فائز تھے۔ سابق فوجی صدر پر فرد جرم اکتیس مارچ 2014 کو عائد کی گئی تھی۔ مختلف اپیلوں کو دائر کرنے کی وجہ سے عدالتی کارروائی التوا کا شکار ہوتی رہی۔ عدالت نے ان اپیلوں پر مختلف اوقات پر اپنی ناراضی کا بھی اظہار کیا تھا۔
منگل 17 دسمبر کو بھی خصوصی عدالت کے سامنے سماعت کے آغاز پر وکلائے استغاثہ نے سنگین غداری کے مقدمے میں کچھ اور ملزمان کو نامزد کرنے کی درخواست کی تھی۔ یہ درخواست عدالت نے مسترد کر دی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کو موت کی سزا دینے والی خصوصی عدالت میں شامل تین ججوں میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ ، اس تین رکنی خصوصی عدالت کے سربراہ ہیں۔ جب کہ بقیہ دو اراکین میں ایک سندھ سے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم شامل ہیں۔ اس عدالت نے اٹھائیس نومبر کو فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا۔
اس صورتحال پر ایک بلاگر سلمان حیدر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مشرف کو پھانسی، جنرل عاصم باجوہ کی سی پیک اتھارٹی میں تقرری کے خلاف رٹ، اور رٹ کرنے والے وکیل کا اغوا، قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے خلاف دلچسپ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کے جرنیل آپس میں گتھم گتھا ہیں اور جس طرح سیاستدانوں کی کبڈی میں طاقت فوج کے پاس چلی جاتی ہے اسی طرح جرنیلوں کی کشتی میں عدلیہ کا زور بڑھ گیا ہے۔
لیکن ابھی یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا یہ دنگل عدلیہ کے اندر بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس کا اظہار وکیلوں کے ذریعے بھی ہو گا اور ایک دوسرے کی کاٹ کرتے فیصلوں کے ذریعے بھی۔ عدلیہ نے فوج کے سربراہ کی تعیناتی کا آلو پارلیمنٹ کی طرف اچھال دیا ہے۔ پارلیمنٹ مفلوج ہے۔ حکومت کا خیال ہے آرمی چیف کے ساتھ ہوتے اسے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے بات کرنے کی کیا ضرورت۔
آصف زرداری نے 18رویں ترمیم کے بعد پاوں سمیٹ کر لڑائی پنجاب میں دھکیل دی ہے۔ میاں صاحب فوج کے جرنیلوں سے یہ کہہ کر نکل گئے ہیں کہ میرے کہے جہادی نہیں سنبھالے اور ڈان والا کیس کر دیا لو اب اپنا کیا سنبھالو۔ جہادی براہ راست حکومت میں آ نہیں سکتے نہ پارلیمنٹ کے ذریعے نہ جرنیلوں کے ذریعے ان کی واحد کپیسٹی معاشرے مین افراتفری پھیلانے کی ہے۔ معاشرہ چلانے کی ان میں سکت ہے اور نہ ہی دنیا انہیں دیکھنا چاہتی ہے۔ بہرحال ریاست اپنا ہی گریبان نوچ رہی ہے اور اپنے ہی منہ پر تھپڑ رسید کر رہی ہے۔ کافی دلچسپ تماشہ ہے۔۔۔
DW/Web Desk