حسن مجتبیٰ
اگرچہ بنگلہ دیش کی آزادی کا دن سولہ دسمبر ہے لیکن یہ آگ اور خون کی اس جوار بھاٹا سے شروع ہوتا ہے جو25 مارچ1971 کی شب کو بہہ نکلی تھی۔ جس کے لیے صحافی انتھونی مسکارینہاس نے کہا تھا کہ ’یہ فقط پاکستان کی فوج اور خدا کو خبر ہے کہ انہوں نے کتنے لوگ مارے ہیں‘۔
پچیس مارچ 1971 کی رات جب پاکستانی فوج ڈھاکہ میں داخل ہوئی تو وہاں چالیس غیر ملکی صحافی موجود تھے جنہیں ڈھاکہ چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔ اس حکم پر عملدرآمد کروانے کے لیے پاکستانی حکومت نے ان غیر ملکی صحافیوں کو ہوٹل انٹر کانٹیننٹل میں آ کر بند کردیا اور بعد میں انہیں کراچی لے جایا گیا تھا۔
ان صحافیوں میں برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کا نمائندہ سائمن ڈرنگ بھی تھا جو کسی طرح ہوٹل انٹر کانٹیننٹل کی چھت پر چھپ گیا اور بعد میں ڈھاکہ شہر میں روپوش ہوکر پاکستانی فوج کی کاروائی ریکارڈ کرتا رہا۔
سقوطِ ڈھاکہ: ایک فوجی کی یادداشت
اس کی روداد بعد میں اس کے اپنے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف سمیت تب دنیا بھر کے اخبارات اور جریدوں ( اسوقت سوائے پاکستان کے ) میں اکثر اوقات جھپتی رہی تھی جسے بعد میں کینیڈا سے جریدے ’پاکستان فورم‘ نے بھی شائع کیا تھا ملاحظہ کیجیے اس رپورٹ کا اردو ترجمہ۔
’یہ بتانا ناممکن ہے کہ ایک دن کے دوران اس فوجی کارروائی میں کتنے لوگ مارے گئےہیں؟ لیکن جو اطلاعات مل رہی ہیں ان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے شہروں مثلاً چٹا گانگ، کومیلا، جیسور اور ڈھاکہ میں مارے جانے والوں کی تعداد پندرہ ہزار ہے۔
البتہ فوجی کارروائی کی دہشت اور ہولناکی کا پورا اندازہ لگایا ان مناظر سے لگایا جا سکتا ہے کہ طالب علم اپنے بستروں میں مرے ہوئے ہیں، قصائی اپنی دکانوں میں ذبح کیے گئے ہیں، بچوں اور عورتوں کی اپنے ہی گھروں میں جلی ہوئی لاشیں پڑی ہیں، ہندوؤں کو ہجوم در ہجوم گھروں سے باہر نکال کر میدانوں میں جمع کرکے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، بازار خاکستر اور زمین بوس ہو چکے ہیں اور ان حالات میں اہم عمارات کے اوپر پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا۔
فی الحال تو لگتا ہے کہ بنگالی بغاوت مکمل طور کچل دی گئي ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کو فوج نے حراست میں لے لیا ہے اور عوامی لیگ کے اکثر بڑے رہنما گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
تحریک کے رہنماؤں میں سے ایک کو زیرِ حراست لے لیا گیا ہے اور دوسروں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کے حامی، دو اخبارات کے دفاتر گرا کر زمین بوس کر دیے گئے ہیں۔
لیکن پچیس مارچ کو ٹینک گھن گرج کرتے ہوئے جونہی ڈھاکہ میں داخل ہوئے تو ان کا پہلا نشانہ طلباء تھے۔ڈھاکہ پر یلغار میں تین پلٹونیں استعمال کی گئيں۔ ایک ٹینکوں والی، دوسری توپخانہ پلٹون اور تیسری پیدل فوج۔ وہ رات کے دس بجے چھاؤنی سے نکلے۔ گیارہ بجے گولہ باری شروع ہوگئي۔ گولہ باری کا پہلا شکار ہوئے وہ لوگ جو راستوں پر درخت کاٹ کر، گاڑیاں الٹا کر یا پھر فرنیچر اور بڑے پائپوں سے رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے۔
شیخ مجیب الرحمان کو خبردار کیا گیا تھا کا کچھ ہونے والا ہے لیکن انہوں نے اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا جواب تھا ’اگر میں چھپ گیا تو وہ میری تلاش میں پورا ڈھاکہ جلا کر کر رکھ دیں گے‘۔
دو سو طلباء مارے گئے۔ طلبہ کو بھی خبردار کیا گیا تھا کہ فوج آرہی ہے لیکن انہوں نے سمجھا تھا کہ زیادہ سے زیادہ انہیں گرفتارہی کیا جائے گا۔ فوج کے ایک دستے نے ایم تھرٹی فور نامی دوسری جنگ عظیم والے ٹینکوں کے ساتھ آدھی رات کے وقت ڈھاکہ یونیورسٹی پر چڑھائی کردی۔
فوج نے برٹش کونسل کی عمارت پر بھی قبضہ کرلیا اور وہیں سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز کو نشانہ بنایا۔ اس اچانک حملے میں اقبال ہال میں سوئے ہوئے دو سو طلباء ہلاک ہوگئے۔ بموں کے گولے عمارت کےٹکرے ٹکڑے کرتے رہے اور سنسناتی ہوئی گولیاں، شیشوں اور کھڑکیوں سے پار ہوتی رہیں۔
اسی ہاسٹل میں عسکری تنظیم والے اور حکومت مخالف یونین کے طلباء رہتے تھے۔ دوسرے ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کی لاشوں کو ایک ہی قبر میں گاڑ دیا گیا اور پھر اس پر ٹینک چڑھا کر ہموار کردیا گیا۔
دو روز بعد بھی بھسم کیے گۓ ہاسٹلوں کے ملبے میں طلبہ کی لاشیں سلگ رہی تھیں اور ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ قریبی جھیل میں بھی کئی لاشیں تیر رہی تھیں۔ سات اساتذہ کو ان کے کواٹروں میں ہلاک کردیا گیا۔ ان کے سرونٹ کوارٹروں میں ایک ملازم کو اسکے خاندان کے بارہ افراد سمیت ہلا ک کیا گیا۔
فوجیوں نے قریبی مارکیٹ بھی تباہ کر دی۔ دکاندار اپنی دکانوں میں یوں پڑے تھے جیسے ننید میں ہوں اور انکے اوپر کمبل پڑے تھے۔ قریب ہی ڈھاکہ میڈیکل کالج پر بھی گولے برسائے گئے جس سے ایک مسجد تباہ ہو گئی۔
جس وقت یونیورسٹی پر حملہ ہو رہا تھا اس وقت فوج کے کچھ اور دستوں نے شہر کی دوسری طرف ایسٹ پاکستان رائفلز کے راجا باغ کے علاقے میں ہیڈکواٹر پر دھاوا بول دیا۔ پہلے ٹینکوں نے گولے برسائے گئے اور پھر آتشیں گولے پھینک کر پولیس کوارٹرز کو زمین بوس کر دیا گیا۔
سامنے رہنے والے پڑوس کے لوگ نہیں بتا سکے کہ اس حملے میں کتنے لوگ مارے گئے پر عام اندازہ یہ ہے کہ پولیس کے کوئی گیارہ سو اہلکاروں کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا۔
اسی وقت فوج کے دوسرے دستوں نے شیخ مجیب رحمان کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرلیا۔ رات کے ایک بجے سے تھوڑی دیر قبل اس نے اپنے کسی پوچھنے والے دوست کو بتایا کہ ’مجھ پر کسی بھی وقت چڑھائي ممکن ہے۔ یہ سوچ کر میں نے اپنے گھر کے تمام افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا ہے‘۔
پھر شیخ مجیب کے پڑوسی نے بتایا کہ کوئی ایک بج کر دس منٹ کے قریب ٹینکوں، جیپوں میں ٹرکوں میں سوار فوجی شیخ مجیب کے گھر پر ہوائي فائرنگ کرتے ہوئے آن دھمکے۔ شیخ مجیب کی رہائش گاہ کے باہر ایک فوجی افسر نے چلاتے ہوئے کہا ’شیخ! باہر نکل آؤ‘۔
’ہاں! میں تیار ہوں لیکن آپ لوگوں کو گولیاں چلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ ٹیلی فون کرتے تب بھی میں چلا آتا۔ پھر وہ فوجی افسر شیخ مجیب کے باغیچے میں گھس گیا اور ان سے کہا، ’آپ کو گرفتار کیا جاتا ہے‘۔ پھر وہ انہیں، ان کے ملازموں اور محافظوں سمیت اپنے ساتھ لے کر گئے۔ ان کے ایک محافظ نے فوجیوں سے ذرا سختی سے بات کی تو اسے بری طرح مارا گیا۔
وہ جیسے ہی شیخ مجیب کو فوجی ہیڈ کوراٹر کی طرف لے جانے لگے، فوجیوں نے ان کے گھر کی توڑ پھوڑ شروع کردی۔ تمام کمروں میں ہر چیز کو پرزہ پرزہ کر دیا گیا۔ تمام کاغذات فوج نے اپنی تحویل میں لے لیے، باغیچے پر تالا لگا دیا گیا اور آزاد بنگلہ دیش کے ہرے، لال اور پیلے رنگوں کے جھنڈے کو گولیاں مار کرگرا دیا گیا۔
چھبیس مارچ کی صبح شہر میں جگہ جگہ آگ جلتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ فوج یونیورسٹی پر قبضہ کرچکی تھی اور وہ طالب علموں کو ڈھونڈ کرگولیاں مار رہی تھی۔ آزاد بنگلہ دیش کے جھنڈے اتار کر ان کی جگہ پاکستان کے جھنڈے لہرائے جا رہے تھے۔
اب بھی کئی جگہوں پر زبردست گولہ باری ہو رہی تھی۔ بظاہر لڑائی کا زور ٹوٹتا نظر آیا۔ ہوٹل انٹر کانٹیننٹل کے سامنے اخبار ’پیپل‘ کے دفتر اور قرب و جوار میں خالی گھروں کو فوج تباہ کرنے میں مصروف تھی اور وہاں موجود ایک اکیلے چوکیدار کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گيا۔
پو پھٹنے سے تھوڑی دیر قبل گولہ باری قدرے ختم ہو چکی تھی اور جیسے ہی سورج نکلا تو شہر میں ایک ہیبت ناک خاموشی تھی۔ صرف کوّوں کی کائیں کائیں اور سڑکوں پر گزرتے ہوئے فوجیوں کی ٹولیوں کے بوٹوں کی آوازیں۔
لیکن بڑی ہولناکی ابھی دوپہر کے لیے باقی تھی۔ بغیر کسی وارننگ کے فوج کے دستے پرانے ڈھاکہ شہر کی پُرپیچ اور تنگ گلیوں میں داخل ہوگئے۔ یہاں شیخ مجیب کے دس لاکھ حامی رہتے تھے۔ ان علاقوں میں فوج گیارہ گھنٹوں تک تباہی پھیلاتی رہی۔انگلش روڈ، فرینچ روڈ، نیا بازار، سٹی بازار، بے معنی نام لیکن ہزارہا لوگوں کے مساکن جنہیں جلا کر تباہ و برباد کردیا گیا۔
فرینچ روڈ اور نیا بازار والے علاقوں میں رہنے والی ایک بڑھیا نے بتایا کہ گلیوں میں اچانک فوجی ظاہر ہوئے اور گھروں کو آگ لگاتے چلے گئے۔ سپاہی یکے بعد دیگرے ٹولیوں کی شکل میں آ رہے تھے۔
انہوں نے ہاتھوں میں پٹرول کے ڈبے اٹھا رکھے تھے جن سے وہ گھروں کو آگ لگا رہے تھے اور جو لوگ بھاگ رہے تھے انہیں گولیوں سے ہلاک کیا جا رہا تھا۔ جو لوگ کھڑے رہے انہیں زندہ جلادیا گیا۔ فوج نے مردوں ، عورتوں اور بچوں سمیت دو گھنٹے میں سات سو لوگوں کو مار دیا۔ ایسی ہی کارروائیاں تین اور محلوں میں بھی کی گئیں۔
سپاہی ہلاک شدگان کی لاشيں ٹرکوں میں بھر کر نئے حملے کے لیے آگے بڑھ جاتے تھے۔ پرانے شہر کی پولیس چوکیوں پر دھاوا بولا گیا۔ایک پولیس اہلکار، جو جلی ہوئی گلیوں میں حیران و پریشان پھر رہا تھا، اس نے بتایا ’میرے تھانے کی حد میں تین سو پولیس والے تھے میں صرف تیس کو ہی تلاش کرسکا ہوں وہ بھی سارے کے سارے مرے ہوئے‘۔
اس آپریشن کی سب سے بڑی کارروائی پرانے ڈھاکہ شہر کے ہندو محلے میں ہوئی۔ ہندوؤں کو گھروں سے باہر نکال کر ایک جگہ جمع کیا گیا اور ان کے گروہوں کی شکل میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان کے گھروں کو آگ لگا کر سارا محلہ ذمین بوس کر دیا گیا۔
فوج بنگالی مخبروں کو ساتھ لیے پھرتی تھی۔ مخبر جس گھر کی طرف اشارہ کرتے اس گھر کو مکینوں سمیت نذرِ آتش کر دیا جاتا۔فوجی دستے شہر کے صنعتی علاقوں نرائن گنچ اور ٹونگي میں بھی گئے جہاں شیخ مجیب کے حامیوں کو بڑی تعداد میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔
تیس مارچ تک جاری رہنے والی اس کارروائی کے آخری حملوں میں بنگالی زبان کے اخبار ’اتفاق‘ کے دفتر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ شہر میں کارروائي ہونے کے بعد چار سو لوگوں نے اخبار کے دفتر میں پناہ لیے رکھی تھی‘۔
BBC