شی کا چینی خواب کیا ہے ؟

بیرسٹرحمید باشانی

اس نےیہ خواب اس وقت دیکھنا شروع کیا تھا،  جب وہ بچہ تھ اورایک غارمیں رہتا تھا۔  اس نے یہ خواب تب سے اپنے سینے میں ایک قیمتی رازکی طرح رکھا۔  یہ چینی خواب تھا، ایک عظیم چین کا خواب جوتاریخ میں کئی عظیم چینی دانشوردیکھتے آئے تھے۔   طویل عرصہ تک یہ خواب دیکھنےکے بعد جب مناسب وقت آیا تو چینی صدرشی جن پنگ نے پارٹی رہنماوں کے سامنے یہ خواب پوری جزیات سمیت پیش کیا۔

اس نےچینی خواب کی باضابطہ اصطلاح پہلی بارعوام میں سن دو ہزار بارہ میں نیشنل میوزیم آف چائنا کے دورے کے دوران استعمال کی۔

شی صرف پندرہ سال کا تھا،  جب اسے بیجنگ سے بہت دورشانشی صوبے کے ایک چھوٹے سے پہاڑی گاوں میں سخت مشقت کے لیے بھیج دیا گیا۔  بیجنگ میں آرام دہ زندگی گزارنے والے ایک بچے کے لیے یہ ناقابل برداشت طرز زندگی تھا۔ چنانچہ شروع دنوں میں وہ بھاگ کر واپس بیجنگ اپنے گھرآ گیا۔  اس کی ماں نے بلاتاخیرحکام کواس کی واپسی کی اطلاع کردی۔  حکام نے اس کوری ایجوکیشنکے لیے چھ ماں تک ایک زیر زمین کیمپ میں رکھا۔  تربیت مکمل ہونے کے بعد اسے واپس اسی گاوں میں بھیج دیا گیا۔

 

 اس گاوں میں شی سات سال تک دن کے وقت کھیتوں میں مشقت کرتا اور رات کو ایک پہاڑی غارمیں پسو سے بھری ہوئی چٹائی پر سوتا رہا ۔ اس نے علاقے میں کھیتی باڑی کے علاوہ ڈیموں کی تعمیراوردیگر چھوٹے موٹےتعمیراتی منصوبوں پرمزدور کے طور پر کام کیا۔  شی کی یہ مشقت اس وقت کے چینی لیڈر چیئرمین ماو کی اس مہم کا حصہ تھی،  جس کے تحت شہری نوجوانوں کودیہی کسانوں کی زندگیوں کو قریب سے دیکھنے کے لیے کسانوں کے ساتھ رہنے اور کام کرنے کے لیے دوردراز کے دیہاتوں میں بھیجا جاتا تھا۔

شی کا بچپن بہت آرام وآسائش سے گزرا تھا۔   اس کا باپ ابتدائی چینی انقلابیوں اور چیئرمین ماو کے قریبی رفقا میں شامل تھا۔ اس کا تعلق چینیوں کی اس پہلی نسل سے تھا، جنہوں نے چین میں انقلاب لانے اور ملک کو ترقی کے راستے پرڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 1952 میں وہ پارٹی کے نشروشاعت کے شعبے کا سربراہ بن گیا۔  بعد میں وائس پریمئر کے طور پر اس نے براہ راست چواین لائی کی قیادت میں سٹیٹ کونسل میں قانون سازی کی۔

سال 1962 میں اس پر پارٹی دشمنی کا الزام لگا کر اسے سرکاری اورپارٹی عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔  خود تنقیدی اور ری ایجوکیشنکے ایک کڑےعمل سے گزارنے کے بعد اسے ایک ٹریکٹر فیکٹری میں  پہلے مزدور اور پھرڈپٹی منیجر لگا دیا گیا۔  چین میں ثقافتی انقلاب کے دوران  دیگر لیڈروں کی طرح اسے بھی گرفتار کر لیا گیا، اس کےخلاف مقدمہ چلا اور اسے قید تنہائی کی طویل ساز دی گئی۔1975 میں اسے رہا کر کہ ایک بار پھر فیکٹری میں بھیج دیا گیا۔  ثقافتی انقلاب کے بعد انیس سو تہتر میں اس کو بے گناہ قرار دیکر دوبارہ لیڈرشپ رول دے دیاگیا۔  سرکاری سطح پر اس کی موت کے خبر نامے میں اس کو ایک انقلابی عظیم کمیونسٹ سپاہی قرار دیا گیا۔

باپ کے اس ہنگامہ خیز  سیاسی نشیب و فراز کی وجہ سے شی کو چینی سماج اور سیاست مین اپنی جگہ بنانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی میں ممبرشپ کی درخواست نو بار مسترد کی گئی۔ دس بارٹیسٹ و انٹرویو سے گزرنے کے بعد اسے پارٹی کاممبربنایاگیا۔ آج بھی چین کی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے اعلی ترین عہدے پر پہچنے کے  باوجود چین میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو شی اور اس کے مقاصد کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

 چینی خواب کے باب میں شی کایک اہم ترین ایجنڈا ملک سے کرپشن کا خاتمہ رہا ہے۔  اس نے کرپشن کو نمبر ون ترجیح قرار دیا، اور اس کے خاتمے کے لیے آٹھ نکاتی فارمولہ پیش کیا۔  اقتدار میں آنے کے فورا بعد اس نے پارٹی اورحکومت کے اعلی ترین اور طاقت عہدے داروں کے خلاف کرپشن کے الزمات پرمقدمات کا آغاز کیا۔  ان لوگوں میں سیکورٹی چیف، ملٹری کمیشن اور پولٹ بیورو کے اعلی عہدے داراو سابق صدر کے معاون خصوصی جیسے ہائی پروفائل لوگ شامل تھے۔  

اس مہم کے دوران حکومتی عہدے داروں کے علاوہ پارٹی عہدے داروں کے خلاف بھی سخت کاروائی کی گئی۔ ایک سو سے زیادہ وزیر کے درجے کےعہدے داروں کو گرفتار کیا گیا۔  اس پکڑدھکڑ میں نجی ملکیت والی کمپنیوں کے آفیسرز سے لیکر فوج کے اعلی عہدے دار شامل تھے۔  دو ہزار سے زاہد عہدے دداروں کو وارننگ، جرمانے اور تنزلی جیسی سزاوں کا سامنا کرنا پڑا۔

کرپشن کے خلاف یہ مہم چئیرمن ماّو کے بعد اپنی نوعیت کی بہت بڑی مہم تھی۔  نقادوں نے اسے سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے اور طاقت کا پنجہ مضبوطی سی گاڑنےنے کی مہم قرار دیا۔  شی نے ایک نئی اینٹی کرپشن ایجنسی قائم کی جواختیارات کے لحاظ سے سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ایجنسی کی کاروائیوں کو کئی چلنج نہیں کیا سکتا۔  ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس ایجنسی کو چین میں انسانی حقوق کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا۔

شی نے جس قسم کے چین کا خواب دیکھا ہے، وہ خالص چینی خواب ہے، جس میں جدید جمہوری اور شہری آزادیوں کے تصورات کی بہت کم گنجائش ہے۔  جین کی کمیونسٹ پارٹی نے سال2013میں ایک خفیہ دستاویز تقسیم کی تھی۔ اس کو دستاویزنمبر نو کا نام دیاگیا تھا،  جوصرف پارٹی ممبران میں تقسیم ہوئی تھی۔  پارٹی نے اس دستاویز میں سات مغربی اقدار کوچینی سماج کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ ان میں آئینی جمہوریت، یونیورسل ویلوز، سول سوسائٹی، نیو لبرل ازم، میڈیا کی خود مختاری، ماضی پرتنقید، اور چینی طرز کے سوشلزم پرسوال اٹھانا شامل ہیں۔

 نصاب تعلیم  اور میڈیا میں ان موضوعات کو ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اس دستاویز کے مطابق مغربی آئنی جمہوریت جن خطرناک خیالات کو پیش کرتی ہے اس میں طاقت کی تقسیم، کثیر الاجماعتی نظام، عام انتخابات اور آزاد عدلیہ شامل ہیں۔  اسطرح یونیورسل ویلوز میں خطرہ یہ ہے کہ وہ ماوسٹ اصولوں کے خلاف ہیں، یہ اقدار قوم کو طبقات میں تقسیم کرکہ چین پراس کا اطلاق کرتی ہیں۔

   سول سوسائٹی کے نظریے میں خطرہ یہ ہے کہ اس کے مطابق افراد کے حقوق ان اجتماعی حقوق پر مقدم ہیں،  جو پارٹی نے وضع کیے ہیں۔  نیو لبرل ازم  میں مئسلہ یہ ہے کہ یہ آزاد معیشت اورگلوبلالئزیشن کی بات کرتا ہے۔  آزاد میڈیا سے مئسلہ یہ ہے کہ آزاد میڈیا  پارٹی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتا ہے۔

 شی کے دورمیں اس دستاویز کوپارٹی ممبران کے لیے ایک بنیادی رہنما دستاویز قراردینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ملک مین اختلاف رائے یا تنقید کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔  اس دستاویز میں بیان کیے گئے اصولوں کی روشنی میں آزادی اظہار رائے کے روایتی ذرائع کے علاوہ سائبرسپیس اور سوشل میڈیا پرسخت پابندیاں عائد کی گئی۔  ان پابندیوں کی ذرہ سی خلاف ورزی  پرعبرتناک سزائیں دیں گئی۔

نقادوں کا خیال ہے کہ چئیرمن ماو کے بعد شی دوسرا چینی لیڈر ہے،  جس نےاس قدرطاقت اوراختیارات اپنے ہاتھوں میں مرتکز کر رکھے ہیں۔  اس نے واضح طورپر اجتماعی لیڈر شپ یا اجتماعی فیصلوں کے برعکس پالیسی اختیارکی ہے۔ اس کے پاس فوجی کمانڈر انچیف سے لیکر ملک کی سربراہی تک تمام عہدے اور اختیارات ہیں۔ عملی اختیارات کے ساتھ ساتھ  چئیرمین ماو کی طرز پراس کا شخصی کلٹ بھی پیدا کیاجا رہا ہے۔

 اس کی شخصیت پر کئی کتابیں، کارٹون اور گیت تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ پارٹی کی لیڈر شپ میں اس کو شی داداکے لقب سے پکارا جاتا ہے۔  جس گاوں کی غاروں میں شی رہاتھا،  وہ گاوں اب ایک طرح کی درگاہ بنتی جا رہی ہے، جس پر ہزاروں چینی زاہرین جاتے ہیں۔  دوسری طرف اسے ایک ایسے مارکسسٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، جس نے چار سال تک یونیورسٹی میں مارکسسٹ تھییوری پڑھی ہے، اور قانون اورنظریے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔

 شی اس وقت تیزی سے اپنے جینی خواب کی تکمیل میں مصروف ہے۔  مگراس خواب کے ساتھ مسئلے ہیں۔  ایک یہ کہ چین امریکہ کے ساتھ سرد جنگ سےآگے بڑھ کر تیزی سےگرم تصادم کی طرف جا رہا ہے۔ اور دوسرا شی کے بعد چین کے پاس اس قد کاٹھ کا لیڈرنہیں ہے، جوچین کے موجودہ بندوبست کو کسی بڑی تبدیلی کے بغیرآگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ 

Comments are closed.