شمس خیال
کسی دانشور کا ایک قول زبان زد عام ہے کہ
“تاریخ سے جو اقوام سبق نہیں لیتی ، تو تاریخ خود کو ان اقوام پر دہرا لیتی ہے“
آب زر سے لکھے جانے والے اس جملے میں زوال کا بہترین نسخہ ہے۔ ہم نے کبھی بھی پیچھے دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سطحی معاشرے کے افراد ہیں ، جس کو نگاہ بلند گردانتے ہیں وہ بھی اتنی ہی بلند ہوتی ہے کہ ظاہر سطح پر ہی جاکر روک جاتی ہے۔ جب سے ہم امت عظیم کا حصہ بنے ہیں اور پھر ایک عرصہ تھا کہ عروج کی بلندیاں دیکھنے کو نصیب ہوئیں اور صرف دیکھنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ اس مکان عرضی و فانی کو اپنا مسکن ابد سمجھ لیا تھا۔ وہ مقام و مرتبہ یقینا عظیم لوگوں کو عظمت و اخلاق بالا کی بنیاد پر ملتا ہے ۔ اس مقام پر جو بھی بیٹھے ہو وہ اپنے معاشرے کےلیے بہترین اور وقت کے عظیم لوگ ہونگے کہ اللہ رب العزت کا وعدہ بھی عظمت حاصل کرنے کے بعد خلافت کا ہوا ہے۔
ہم جب سے کوتاہ مقام ہوئے ہیں تب سے کوتاہ بین و کوتاہ نظر بن گئے ہیں ، نظریں ہیں کہ اوپر کو جاتی ہی نہیں ، خواہشیں کہ ذات سے نکلنے نہیں دیتی ، زبان ہے کہ خود کی تعریفوں سے تھکتی نہیں، دل ہے کہ وسوسوں سے نکلتا نہیں، خیالات کے گروندے ہیں کہ افکار بننے تک کے سفر سے یکسر انکاری ہیں۔ انتخاب ہے کہ صحیح سمت ہوتا ہی نہیں ، چلتے اسی راہ پے ہیں کہ جس راہ میں صدا کی ٹھوکریں ہی لکھیں ہیں۔
ایک بار ایک راہ پر چل پڑتے ہیں ، اس پر ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرتے ہیں اور پھر بستر سے ہی لگ جاتے ہیں کہ دوبارہ اٹھنے میں ان غلامی کی زنجیروں میں جکڑ ے ہوئے کندھوں میں سکت باقی نہیں رہتی منزلِ یکساں رکھنے والے دیگر راہی آتے ہیں پھر اسی راہ پر چلتے ہیں ، پیچھے نہ دیکھنے کے سبب پھر گھیرتے ہیں اور پھر رفیق خواب گاہ ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔
ہماری اسی کوتاہ بینی کا ہمیشہ یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ہم نے ہمیشہ انتخاب راستہِ ویراں کا ہی کیا ہے کہ جس پر چل کر منزل رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملتی۔ انہی سطحی نگاوں کا نتیجہ ہے کہ ہمیشہ مسیحاوں کی شکل میں رہزنوں کے پیچھے چلے ہیں۔ دورانیہ زوال میں یہی وجوہات و اسباب ہیں کہ جو ہمیں عروج کی جانب رخت سفر باندھنے سے روکے ہوئے ہیں۔
تاریخ برصغیر میں جب سے ہم پر زوال آیا ہے، ہمارے بڑوں نے حالات سطح کی بجائے پس پردہ بھی بغور دیکھے اور ایک راستے کا تعین کرایا۔ خود صف اول میں تھے اور پیروکار ان کے پیچھے تھے ۔ میری مراد شہنشاہیت مغلیہ کے بعد اکابرین دیوبند و دیگر سلف صالحین کی طرف ہے۔
وہ چلے ، اور زوال کے سمت مخالف میں دوڑنے کی سعی کی ۔ جب نکلے تو زمانہ بدل چکا تھا اور جس راستے کا انتخاب کیا تھا اس پر منہ کے بل گرے۔
آہ کیا ہمت بلند و نگاہ شاطر رکھنے والے افراد تھے!
جب گرے تو دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی اور پیچھے دیکھا جو غلطیاں سرزد ہوئی تھی ان کو یکسر مٹانے کی تمام سعی مکمل پربصیرت انداز میں کی ۔ عالم زوال سے نکل کر عروج کی جانب جانے کو صحیح راستے کا تعین دوبارہ کرایا۔ جنگی دنیا کو ترک کرکے علم کو ہتھیار بنایا۔ اسی وقت میں مسلمانوں کے آکسفورڈز، علی گڑھ اور دیوبند میں بننے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ جب قیام دارلعلوم دیوبند کا مقصد قاسم نانوتوی سے پوچھا گیا تو بتانے لگے کہ “ازالہ جنگ آزادی ہے“، یعنی جسکی بدولت ناکام ہونے کے بعد صحیح راستے پر چل کر کامیاب ہونگے۔
ہمیشہ سے جس کی بدولت عروج ملا کرتا ہے اسی راہ پر چل پڑے، لیکن اس راہ پر چلتے ہوئے بھی چند شاذ لغزشیں سرزد ہونے لگی اور دیکھنے والی نظروں کو نظر آنے لگی۔ ایک مقام سے دوسرے مقام تک کے ارتقاء میں ایسا ہونا قانون فطرت ہے اور جس سے انکار کرنا جہل کبیر ہوگا، یہی سعی در سعی ہی تو عکس زندگی کو رنگینیاں بخشتی ہیں۔ زوال یافتہ ہونے کی وجہ سے دنیاِ بالا کے محرکات سے قطعِ نگاہ کی بنیاد پر قدامت پسندی فطرت پر غالب ہونے جارہی تھی اور اہل علم اکثر اسی میں محو ہونے لگے۔ یہی فارغ یافتگان علی گڑھ و دیوبند میں بعد کی وجہ بنی کہ دونوں کی ایک دوسرے سے دوری کی بنا پر ایک بھی انتہاء پر پہنچے گئے تھے اور دوسرے بھی۔ لیکن زندہ قوموں و اشخاص کے اعمال کا وہی نسخہ ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد نے بیان فرما دیا ہے کہ
“دنیا میں ہر ذمہ داری کے تقاضے ہیں اور وہ تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں دنیا میں ٹھوکریں انہی کو لگتی ہیں کہ جو چلتے ہیں جو پاوں توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں انہیں کبھی ٹھوکر نہیں لگتی” ۔
گرنے کے بعد صاحبان شاطر نظر اپنے پاوں اور اگلے قدم کے درمیان آئے اُس باعثِ ٹھوکر کو بغور دیکھ لیتے ہیں اور پھر اس کو اگے بھی مدنظر رکھتے ہوئے پھر سے چل پڑتے ہیں ۔ غرض یہاں بھی یہی ہونے لگا کہ تاریخ نے شیخ الہند کو عمر آخر میں علی گڑھ میں خطبہ دیتے ہوئے ہوئے پایا اور اسلام و مسلمانوں کےلیے اس ادارے سے خدام پیدا کرانے کےلیے زمین ہموار کی اور پہلا ثمر علی برادارن کی شکل میں پایا۔
اگرچہ کوتاہ بینوں کےلیے تب بھی یہ اقدام ہلا دینے کے باعث بنی۔ ادھر سے مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے قد آور شخصیات سرسید کے مداح ثابت ہوئے اور انکی علمی خدمات کو سراہا ۔ غرض انتہاء سے اعتدال کی جانب آنا نصیب ہوا اور منزل کی جانب صحیح راہ پر صحیح سمت میں بڑھنے لگے۔ اور تحریک خلافت سے تقدیر ہندوستان بدلتی ہوئی نظر آنے لگے۔
حصول منزل کےلیے علمِ کثیر کو حالات حاضرہ کی رو سے سانچہ عقل میں جب تک نہ ڈھالا جائے تو وصل سماوی و عرضی جتنی محال ہے اس قدر حصول منزل بھی ناممکنات میں ہی رہے گا۔ یہ ایام زوال کا ایک تمہیدی خاکہ تھا جس میں اس سے نکلنے کی کاوشوں کو بھی اشارتاً بیان کردیا مگر اسکے بعد سے اب تک نسل در نسل انجانے غلام کیونکر بن گئے اور یوں ہی رہ گئے، اس کی وجوہات انشاءاللہ اگلی قسط میں آپ سے بیان کرونگا۔
♦