کیا بلوچ شناخت خطرے میں ہے؟


باہوٹ بلوچ

بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جو ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے، بلوچ اس خطے میں ہزاروں سال سے آباد ہیں، جس کی گواہی مہر گڑھ دیتا ہے، بلوچستان پر پاکستان گذشتہ ستر سالوں سے قابض ہے جبکہ اس قبضہ گیریت کے خلاف روز اول سے ہی بلوچ نے مزاحمت کی، دور حاضر میں بلوچ مزاحمت کا پانچواں دور چل رہا ہے، گذشتہ دو دہائیوں سے سیاسی و مسلح محاذ پر بلوچ پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف برسرپیکار ہے۔

قصہ مختصر، گذشتہ روز آن لائن نیوز ویب سائٹ ’’حال احوال‘‘ پر رحیم بلوچ نامی شخص کی جانب سے ایک کالم میں سوال اٹھایا گیا کہ ’’کیا بلوچ شناخت واقعی خطرے میں ہے؟‘‘، رحیم بلوچ نے تحریر کے پہلے ہی حصے میں بلوچ آزادی پسندوں کی دلیلوں کو کمزور بنیادوں پر قائم کہہ کر اسے مفروضہ قرار دیا ہے۔ از خود “قومی شناخت” کو بلوچ آزادی پسندوں کی واحد دلیل گرداننا اور قومی شناخت کو محض پوشاک و زبان کے معنوں میں تشریح کرکے یہ فیصلہ کرنا کہ یہ دلیل ہی کمزور ہے، علمی، تخلیقی، جذبی و تجزیاتی کمزوری کی عین عکاسی کرتی ہے۔

پوشاک و زبان اور لٹریچر ضرور اس شناخت کا حصہ ہونگے لیکن شناخت کا چشمہ اس امر سے پھوٹتا ہے کہ ” ہم اپنے فیصلے خود کریں” بطور ایک قوم ایک تاریخی دور سے گذر کر اور خون بہا ادا کرنے کے بعد میں نے یہ حق محفوظ کیا ہے کہ میں اپنی خارجہ پالیسی خود ترتیب دوں، اپنا معاشی و معاشرتی نظام خود چنوں، اپنے اجتماعی قومی مستقبل کے راہیں خود متعین کروں، اپنی سرحدیں خود مقرر کروں، اپنے دوست و دشمن کا فیصلے خود کروں، اور اپنے ترقی کا ضامن خود بنوں۔

اگر یہ حقوق میرے پاس نہیں ہیں تو میری شناخت خطرے میں ہے۔ اگر دنیا کی کوئی بھی ملک، قوم، مذہب، دوست یا ہمسایا آکر کسی بھی دلیل یا طاقت کے تحت کہتا ہے کہ میری جگہ وہ آکر میرے یہ فیصلے میرے لیے کریگا تو وہ انتہائی سادہ الفاظ میں جابر ہے، قابض ہے اور کچھ نہیں اور جو شخص اسے کسی بھی اور نام سے پکارے گا، وہ خوفزدہ ہے، یا بکا ہے یا پھر نادان ہے۔ سب سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ بلوچستان پاکستان کے ساتھ شامل نہیں ہوا تھا بلکہ اس پر بزور طاقت قبضہ کیا گیا۔ بلوچستان پر پاکستان کی جانب سے فوج کشی کی گئی اور جبری طور پر الحاق نامے پر دستخط لیے گئے۔

رحیم بلوچ لکھتے ہیں کہ ستر سالوں میں بلوچ کے ایک حلقے نے پانچ بار بندوق اٹھایا، جس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک حلقہ نہیں بلکہ ایک سوچ رکھنے والے افراد نے بندوق اٹھایا اور ہر بار بندوق اٹھانے والے طبقات مختلف تھے (بلوچستان میں موجودہ طبقاتی نظام کس شکل میں وجود رکھتی ہے وہ الگ بحث ہے)، پانچوں بار یہ مزاحمت نشونما پاتی رہی جس کی واضح تصویر کشی کی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جب آپ کسی قبضہ گیر کے خلاف بندوق اٹھاتے ہیں، تو نوآبادیاتی تسلط کو قائم رکھنے و دوام بخشنے والے اداروں و تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔

بلوچ آزادی پسند اس امر کا بھی بارہا اظہار کرچکے ہیں کہ اس جنگ کے دوران کئی بلوچ موت کی آغوش میں چلے گئے جو انتہائی قابل انسان تھے جبکہ آج بھی بلوچستان کے طول و عرض میں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔ رحیم بلوچ نے یہ لکھنے کی زحمت نہیں کی کہ موت کی آغوش میں جانیوالے والوں میں پروفیسر صبا دشتیاری جیسے تخلیقی انسان بھی گئے، غلام محمد بلوچ جیسے افراد بھی گئے حتیٰ کہ سبین محمود جیسے انسانی حقوق کے علمبردار بھی حقوق کی بات کرنے پر چپ کرا دیئے گئے۔ اور ان تمام تخلیقی و متحرک انسانوں کو موت کے آغوش میں بھیجنے والی قابض ریاست تھی۔

موصوف نے لاپتہ افراد کا ذکر کیا لیکن یہ نہیں لکھ پائے ان کو لاپتہ کون کررہا ہے، آج پوری دنیا جانتی ہے اور سب سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شہر میں جہاں فورسز کے اہلکار تعینات ہو، وہاں سے کون لوگوں کو لاپتہ کرسکتا ہے۔ ان واقعات کے چشم دید گواہ تک موجود ہیں جن کے سامنے پاکستانی فورسز اور ان کی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار لوگوں کو اٹھاتے ہیں بعد ازاں انکی لاشیں ویرانوں یا توتک جیسے اجتماعی قبروں سے ملتی ہیں۔ ان واقعات کے ویڈیو بھی منظر عام پر آچکے ہیں کہ کس طرح پاکستانی فوج کے اہلکار لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے بعد ان کے چہروں کو مسخ کرنے کیلئے ان کے چہرے پر تیزاب ڈالتے ہیں یا پاکستانی فوج کے اہلکاروں کے گھیرے میں پڑے معذور شخص کو کس طرح گولیاں ماری جاتی ہیں۔

شاید موصوف کو ان واقعات کے حوالے سے علم نہیں یا پھر، نامعلوم افراد کے خوف سے ان کو حذف کردیا۔ رحیم بلوچ اپنی تحریر میں بلوچی زبان پر ترکی و ایران میں کردش زبان و ناموں جیسی پابندیاں لگنے کا خواہش رکھتے ہیں، تو کیا بلوچستان میں لٹریچر پر پابندی نہیں ہے؟ اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں کتابوں کی دکانوں اور کالج ہاسٹلوں پر چھاپے مارکر پاکستانی رائٹر ڈاکٹر مبارک علی و دیگر کی کتابوں کو پاکستانی فوج نے ضبط کرکے انہیں دہشت گردانہ لٹریچر قرار دیا جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔

بلوچستان میں آج بھی لکھاری کچھ لکھنے سے پہلے ہزاروں بار سوچتا ہے، کہیں میری تحریر سے ریاستی خفیہ اداروں اور فورسز کے اہلکار ناراض نہ ہوجائیں۔ بلوچستان کو آج بھی براہوئی اور بلوچی کے نام پر ریاستی سازشیں ہورہی ہیں، اس سے آپ کیسے انکاری ہوسکتے ہیں جبکہ سکولنگ سسٹم بلوچی، براہوئی، کھیترانی، لاسی و دیگر زبانوں پر کس سطح پر کام ہورہا ہے اس کا بھی حال احوال دیا جاتا تو بہتر تھا۔ آج اگر بلوچی لٹریچر اگر تھوڑا وجود رکھتا ہے تو بلوچ قوم کی اپنی مدد آپ کے تحت محنت کا نتیجہ ہے اس میں پاکستان کی حصہ داری نظر نہیں آتی ہے۔

بلوچ کلچر ڈے کو اگر پاکستانی فورسز منار ہی ہیں تو ان کے مقاصد واضح ہیں کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ بلوچ ہمارے ساتھ خوش ہیں اور انہیں ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں گوکہ بلوچ کلچر ڈے آزادی پسند جماعتوں نے متعارف کرایا تھا ، جس کی تقریبات پہلے پہل بلوچ آزادی پسند جماعتیں ہی مناتی رہیں جبکہ پاکستان فورسز کی جانب سے ان تقریبات کو سبوتاژ کیا جاتا رہا۔

خضدار میں 2010 کو کلچر ڈے کے پروگرام کو دستی بموں سے نشانہ بنایا گیا، جس میں طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد کے ممبر جنید بلوچ سمیت دو افراد شہید جبکہ 24 افراد زخمی ہوگئے۔ آج پاکستانی فوج کے کیمپوں میں کلچر ڈے کی تقریبات منائی جاتی ہیں اور ان کی تشہیر بھی فوج کے میڈیا سیلز کے ذریعے کی جاتی ہے، جس کے مقاصد میں دنیا کو گمراہ کرنا شامل ہیں، دوسری جانب یہ بھی قابل ذکر ہے کہ فوج کی پشت پناہی میں رواں سال براہوئی کلچر ڈے منانے کی بھی کوشش کی گئی جو بلوچ قوم کو زبانوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے سازش ہے۔

موصوف یہاں خود منافقت کررہے ہیں کہ سکے کا ایک رخ دکھاکر پاکستانی فوج کی طرح لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ موصوف کوئٹہ کے وہ دن یاد کرنے سے گریزاں ہے جب نوجوانوں کو سریاب روڈ پر روک ان کے لمبے بال کاٹ دیئے جارہے تھے یا ان کی بڑی شلواروں کے باعث روڈ پر گھنٹوں کھڑا کیا جاتا تھا۔ رحیم بلوچ وہی پرانی بات دہراتے ہے کہ جی نا انصافیاں تو ہوئی ہے لیکن بلوچوں کے نمائندے خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بات ہر وہ پاکستانی کرتا ہے جس کو بلوچ اور بلوچی میں فرق معلوم نہیں ہے۔

یہ وہی نمائندے ہیں کہ بلوچستان تو چھوڑیں پنجاب کے سیاسی پارٹیاں بھی انہیں سلیکٹڈ کہہ رہے ہیں، یہ وہی نمائندے جن کی پارٹی راتوں رات بن گئی جبکہ دوسری جانب سے بلوچستان کے کئی علاقوں میں بیلٹ باکس ہی نہیں پہنچ پائے، المیہ یہ ہے کہ ان ہی علاقوں سے نمائندے بھی منتخب ہوئے۔ صوبائی حکومت کو چلانے والے افراد بھی وہی جنہیں اسٹیبلمنشٹ سامنے لانا چاہتا ہے اور بلوچ یہ واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ یہ بلوچستان کے نمائندے نہیں بلکہ پاکستان کے کٹھ پتلی سلیکٹڈ لوگ ہیں۔

کیا نمائندے ایسے ہوتے ہیں کہ گذشتہ سال دسمبر کے سرد دنوں اور راتوں کو لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاج کرتے رہے ہیں نمائندہ ان تک آنے کی زحمت نہیں کرسکا۔ آپ انہیں بلوچ پر مسلط کردہ نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔ موصوف آج بھی سڑکوں و بجلی کو ترقی کہہ رہے ہیں، جس خطے میں انسانی زندگیوں کی بات ہو وہاں بجلی، سڑکیں اور نالیاں چھوٹی چیزیں ہوتی ہے اور جن سڑکوں کی تعمیر کو آپ ترقی کہہ رہے ہیں در اصل وہ استحصالی پراجیکٹس کا حصہ ہے، بلوچستان تیل، گیس و دیگر وسائل سے مالا مال ہے اور انہی وسائل کو لوٹنے اور فوجی نقل و حرکت میں آسانی کیلئے آج پاکستان بلوچستان کی شہروں کی بجائے پہاڑی علاقوں، ویرانوں سے سڑک جیسی نام نہاد ترقی کا کام کررہی ہے۔

جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سڑکوں و دیگر استحصالی پراجیکٹس کا ٹھیکہ بھی پاکستانی فوج کے کاروباری اداروں کے پاس ہے۔ سی پیک کے نام پر لوگوں کو علاقہ بدر کیا جارہا ہے، اس روٹ پر آنے والے بستیوں کو خالی کرایا گیا، گوادر کو کالونائز کرنے کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے اور اس پر باقاعدہ کام کیا جارہا ہے۔ اب یہ کس طرح کی ترقی ہے کہ مقامی لوگوں کو اس سے دور کیا جارہا ہے، بلوچ مزاحمت کار واضح کرچکے ہیں کہ ان استحصالی منصوبوں کی ہم اجازت نہیں دینگے۔

یہاں موصوف نے بلوچ مزاحمت کاری اور علیحدگی کی سوچ پر سوال اٹھایا ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ بلوچ مزاحمت کار ہیں کون؟ جس کا سیدھا سا جواب ہے بلوچ عوام، آج کا مزاحمت کار وہ ہے جو شعوری طور پر اس تحریک کا حصہ بنا ہے، جس کو معلوم ہے اس کی اپنی الگ زبان، ثقافت، تاریخ اور سرزمین ہے جس کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگ کے باعث لوگوں کے کاروبار، روزگار اور روز مرہ کی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں لیکن اس کے باعث آپ اپنے سرزمین سے دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں۔

وسائل سے مالا مال بلوچ سرزمین پر بسنے والے آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں شہری سہولتیں کچھ آبادکاروں کو خوشحال کرسکے ہیں، بلوچستان کے طول و عرض میں بسنے والا بلوچ آج بھی سوکھی روٹی کھاکر زندگی گذار رہا ہے، جس کی خوشحالی تب ہی ممکن ہوسکتی ہے جب وہ اپنے سرزمین کا مالک خود ہوگا اور جب تک بلوچستان مقبوضہ رہے گا تب تک یہاں کٹھ پتلی پارلیمنٹ اور سلیکٹ نمائندوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔ پاکستانی فریم ورک میں رہ کر حقیقی سیاست کی بات کرنا بچگانہ ہے جہاں پاکستان کے وفادار نواز شریف کو فوج سے ٹکراو پر دیوار سے لگایا جاتا ہے وہاں بلوچ کی حیثیت ہی کیا ہے۔

ان سب عوامل کو دیکھ کر بلوچ نے بندوق اٹھایا ہے، بلوچ قوم پاکستانی فریم ورک میں رہ کر سیاست کے نتائج کو جانتی ہے جس کا حاصل صفر ہے اسی وجہ سے ہی بندوق کا راستہ اپنایا، جب سرزمین بلوچ کی ہے، ان میں موجود وسائل بھی اسی کے ہیں تو کیونکر غلام بن کر اپنے خود کے حق کی بھیک مانگیں؟ آج بلوچ قومی شناخت بلکل خطرے میں ہے، اگر بلوچ قومی شناخت اپنا وجود برقرار رکھ رہی ہے تو صرف اور صرف مزاحمت کے باعث، بلوچ قوم بحیثیت مجموعی نازرک ترین موڑ پر ہے جس کا اظہار بلوچ آزادی پسند رہنما کرچکے ہیں۔

آج اگر بلوچ خاموش رہا تھا اس کے قومی وجود کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا پائے گا بلوچ شہدا اور بلوچ سرزمین دو ایسی حقائق ہے جن سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہی دو حقائق بلوچ قوم کے لیے کافی ہے کہ مزاحمت کے ذریعے اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسل کے لیے اپنا آزاد وطن دوبارہ حاصل کریں۔

Comments are closed.