سپریم کورٹ کی خصوصی عدالت نے سابق آمر جنرل پرویز مشرف کو غداری کے الزام میں موت کی سزا سنائی ہے ۔ یہ ایک انتہائی اہم فیصلہ ہے ۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے سابقہ آرمی چیف کو آئین کو معطل کرنے کے الزام میں غداری کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ اس سزا پر فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آرنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے اس فیصلے سے پاک فوج میں رنج اور غصہ پایا جاتا ہے۔
پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ’’ جنرل پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے اور یہ کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے‘‘۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان جنر ل غفور نے کہا کہ تفصیلی فیصلے میں استعمال کیے گئے الفاظ انسانیت مذہب، تہذیب اور کسی بھی اقدار کے خلاف ہیں۔ ’افواج پاکستان ایک منظم ادارہ ہے۔ ہم ملکی سلامتی کو قائم رکھنے اور اس کے دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے حلف بردار ہیں‘۔
فوجی ترجمان کے بیان نے پاک فوج کی سیاست میں مداخلت کو واضح کر دیا ہے۔ ماضی میں جب یہی عدالتیں سیاستدانوں کے خلاف فیصلے دیتی تھیں تو فوجی ترجمان انہیں آئین و قانون کی بالادستی قرار دیتے تھے لیکن اپنے ہی چیف کے خلاف فیصلہ آنے پر آئین اور قانون کی بالادستی کی بجائے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔جب نوازشریف کو سزا سنائی گئی تھی تو فوج کے ترجمان نے اسے آئین اور قانون کے مطابق قرار دیا تھا ۔
سوشل میڈیا کے مطابق اس ملک میں فاطمہ جناح تو غدار ہو سکتی ہے مگر جنرل مشرف نہیں۔فوج کی جانب سے سیاستدانوں کو غدار کہنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ پاک فوج کے اقتدار پر قبضے کی جس نے بھی مخالفت کی وہ غدار قرار پایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکادیا گیا اور بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قراردیا گیا۔
یہ بات تو طے شدہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی سزائے موت پرعمل درآمد کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود رسمی طورپرسہی اس سزائے موت کا سنایا جانا پاکستان کے عوام میں جمہوری جذبات اوررحجانات کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔ جہاں تک یہ دعوی ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد کسی جنرل کو مارشل لا لگانے کی ہمت اور جرات نہیں ہوگی تو اس مرحلے پر اس دعوی کو خوش فہمی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ آمرانہ قوتیں اور ان کے حواری ابھی بہت طاقتورہیں۔ جمہوری جدوجہد کو ابھی طویل اور کٹھن سفر طے کرنا ہے
Web Desk