پاکستان کے انتہائی متحرک میڈیا اور انتہائی سرگرم سیاست دانوں کی تعمیراتی شعبے سے تعلق رکھنے والے ملک ریاض کی لندن جائیداد کے مسئلے پر خاموشی ملک کے کئی حلقوں کے لیے حیران کن ہے۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کا ملک ریاض کی فیملی کے ساتھ حال ہی میں ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کا ایک تفصیہ ہوا ہے۔ پاکستانی انگریزی روزنامہ ڈان کے علاوہ کسی نامور میڈیا گروپ نے اس بزنس ٹائیکون کا نام نہیں شائع کیا۔ یہاں تک کہ حکومتی عہدیدار، جو اپنے مخالفین پر مختلف نوعیت کے غبن کے الزامات لگاتے رہتے ہیں، وہ بھی اس مسئلے پر خاموش رہے اور انہوں نے بھی ملک ریاض کا نام لینے سے احتراز برتا۔
سیاست دانوں اور میڈیا کے اس رویے کی وجہ سے کئی حلقے اب یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ملک ریاض تنقید سے بالا تر ہیں؟
واضح رہے کہ ماضی میں اُن پر غیر شفاف طریقے سے کراچی اور ملک کے دوسرے علاقوں میں زمینیں حاصل کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصے قبل جب سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون کراچی کے حوالے سے ایک فیصلہ آیا، تو کورٹ کی لمحہ بہ لمحہ خبر دینے والے میڈیا اس خبر پر تقریبا ‘خاموش‘ رہا۔ اس صورت حال میں کئی حلقوں میں یہ خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ ملک ریاض ایک ‘مقدس گائے‘ بن چکے ہیں اور ایسے ملک میں، جہاں آرمی جیسے طاقتور ادارے پر تنقید ہو جاتی ہے، وہاں ملک ریاض پر تنقید کرنا ‘مشکل ہوتا‘ جا رہا ہے۔
جب ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے مختلف سیاست دانوں کے تاثرات لینے کی کوشش کی، تو متعدد نے بات کرنے سے ہی معذرت کر لی۔ ایک سیاست دان نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا، ”لوگ کہتے ہیں کہ سیاست دان ملک ریاض کے مسئلے پر کیوں نہیں بولتے۔ میں پوچھتا ہوں کہ اس مسئلے پر کیا میڈیا بول رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اب تعاون کی آپ خود تشریح کر لیں۔ تو پھر ان کے خلاف کون بولے گا؟‘‘۔
معروف سیاست دان میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ میڈیا سیاست دانوں کے ایک چھوٹے مسئلے پر بھی آگ بگولہ ہو جاتا ہے لیکن اس مسئلے پر چپ کا روزہ رکھ لیا گیا ہے، ”ملک ریاض نے تو کھل کر کہا تھا کہ انہوں نے میڈیا کو خریدا ہوا ہے۔ میڈیا میں سے کسی بھی طرف سے اس کی تردید نہیں آئی۔ سارے سیاست دانوں کو وہ نوازتے ہیں۔ مجھ جیسے چند کنگلے سیاست دانوں کو چھوڑ کر، ان کے زیادہ تر سیاست دانوں کے ساتھ کاروباری تعلقات ہیں۔ تو ان کے خلاف کون بولے گا؟ یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے۔ اگر کہیں کسی کے کاروبار میں یا کاروبار چلانے کے معاملات میں کوئی غیر شفافیت ہے تو اس کا پبلک کو پتہ چلنا چاہیے‘‘۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا خیال ہے کہ ملک ریاض کا پاکستانی سوسائٹی اور سیاست پر بہت اثر و رسوخ ہے۔ اسی لئے لوگ ان کے مسائل پر نہیں بولتے، ”وہ سیاسی جماعتوں کو چندہ دیتے ہیں۔ سیاسی شخصیات کو مفت گھر دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کمپنی میں ریٹائرڈ جنرلز اور دوسرے ملٹری افسران، بیوروکریٹس اور اینکر پرسن کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ تو ایسی صورت حال میں ان کے خلاف کون بولے گا؟‘‘۔
پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا اس مسئلے پر بات چیت نہیں کر رہا لیکن سوشل میڈیا بہت تنقید ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت نے بھی ملک ریاض پر طنز کے نشتر چلاتے ہوئے سوال کیا کہ ان کا نام میڈیا میں کیوں نہیں لیا جا رہا؟
پاکستان میں سوشل میڈیا اس وقت واحد پلیٹ فارم ہے، جہاں اس موضوع پر بحث ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” پی ٹی آئی تو اقتدار میں نعرہ ہی کرپشن کے خلاف لگا کر آئی تھی۔ اس کا تو منشور ہی غیر شفاف بزنس کے طریقوں سے لڑنا ہے۔ تو اگر اس ٹرانزیکشن میں کوئی غیرشفافیت کا پہلو ہے تو وہ حکومت کی طرف سے سامنے آنا چاہیے۔ اگر حکومت نے ایسا نہ بھی کیا تو چیزیں تین چار دن میں کھل جائیں گی۔ آج کے دور میں حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
برطانيہ کی نيشنل کرائم ايجنسی نے گزشتہ روز بتايا تھا کہ تصفیے کے طور پر انيس کروڑ پاؤنڈ کی حاصل ہونے والی رقم پاکستانی حکومت کے حوالے کی جائے گی۔
جبکہ ملک ریاض نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا ہے کہ وہ پہلے ہی یہ رقم حکومت پاکستان کوسپریم کورٹ کی جانب سے سنائی گئی جرمانے کی سزا میں ایڈجسٹ کراچکے ہیں۔
DW/Web News