بہاوالدین یونیورسٹی ملتان کے انگلش کے پروفیسر جنید حفیظ کو ان کے خلاف مقدمے میں سزائے موت کا فیصلہ ایک عدالت نے آج ہفتہ اکیس دسمبر کو سنایا۔
گزشتہ تقریباً چھ برسوں سے ملتان جیل میں بند جنید حفیظ کو زیادہ تر اس لیے ایک علیحدہ کمرے میں رکھا گیا تھا کہ دیگر قیدیوں کے ساتھ رکھے جانے کی صورت میں ان پر جیل کے اندر ہی قاتلانہ حملہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ سکیورٹی خدشات کی بناء پر ان کے خلاف آج ہفتے کے مقدمے کی سماعت بھی اسی جیل میں کی گئی، جہاں وہ قید ہیں۔
جنید حفیظ کے وکیل کے مطابق ان کے مؤکل کو سزا سنانا ایک غلط فیصلہ ہے، جس کے خلاف وہ اپیل کریں گے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار سابق یونیورسٹی لیکچرار کو دیگر الزامات ثابت ہونے پر عمر قید اور دس سال قید کا بھی حکم سنایا ہے۔ جنید حفیظ پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
صحافی محمد زبیر کے مطابق حکومتی پراسیکوٹر ضیا الرحمان چوہدری کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج کاشف قیوم نے سنیچر کو سنٹرل جیل ملتان میں فیصلہ سنایا جس میں جیند حفیظ کو دفعہ 295 اے، بی اور سی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا، عمر قید، دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’جیند حفیظ کی تینوں سزاؤں پر عملدرآمد ایک ساتھ شروع ہو گا۔ جس میں عمر قید اور قید کی سزا پوری ہونے پر پھانسی کی سزا دی جائے گی‘۔
ملزم جنید کے خلاف 15 گواہوں کی شہادتیں اور زیر دفعہ 342 کے بیانات مکمل کیے گئے۔ مقدمے کے بقیہ 11 گواہوں کو غیر ضروری جان کر ترک کر دیا گیا۔واضح رہے سابق یونیورسٹی لیکچرار جنید حفیظ پر سوشل میڈیا پر مذہبی دل آزاری پر مبنی تبصرہ کرنے کا مقدمہ 13 مارچ 2013 میں درج کیا گیا تھا۔ سکیورٹی خدشات کے باعث اپریل 2014 کو کیس کی سماعت سینٹرل جیل میں کرنے کی ہدایات جاری ہوئی تھی۔
مقدمے کا آغاز سنہ 2014 میں ہوا تھا جبکہ استغاثہ نے اس میں تیرہ شہادتیں دی تھیں۔ جس میں یونیورسٹی کے دیگر استاد، طالب علم اور پولیس کی شہادتیں تھیں۔جنید حفیظ کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ جیند حفیظ کے وکلا کے مطابق وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
گذشتہ سات برس سے جاری توہین مذہب کے اس مقدمے کی شنوائی کرنے والے آدھ درجن سے زائد جج تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ مقدمے کی پیروی کے دوران ہی وکیلِ صفائی راشد رحمان کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔
یاد رہےاپریل 2014 میں سکیورٹی خدشات کی بنا پر جنید حفیظ کے خلاف مقدمے میں ملتان سینٹرل جیل میں سماعت کے موقع پر ملزم کے وکیل راشد رحمان اور اللہ داد مقدے کی سماعت کے دوران جج کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
جب وہ ملزم کی بریت کے لیے دلائل دے رہے تو تین افراد نے جج کی موجودگی میں راشد رحمان ایڈوکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’آپ اگلی مرتبہ عدالت نہیں آ سکیں گے کیونکہ آپ اب مزید زندہ نہیں سکیں گے۔‘
ایڈوکیٹ راشد رحمان نے جج کو توجہ دھمکی کی جانب دلائی تاہم اطلاعات کے مطابق جج صاحب نے مبینہ طور خاموشی اختیار کیے رکھی۔اس کے اگلے ہی ماہ سات مئی 2014 کو انھیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ وکیل راشد رحمان کے قتل کے دو ماہ بعد 11 جولائی سنہ 2014 کو مقدمے کی پہلی سماعت ایڈیشنل سیشن جج شہباز علی پراچہ کی غیر حاضری کی وجہ سے ملتوی ہو گئی تھی۔
جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے جنید کا مقدمہ لڑنے کے لیے آٹھ وکلا کی ٹیم تشکیل دی تھی۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وکیل راشد رحمان کے قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار کا بھی اس واقعے کے چند ہفتے بعد تبادلہ کر دیا گیا تھا۔
بعض وکلا کے بقول اس تبادلے نے تحقیقات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔دسمبر 2014 میں جنید حفیظ کے وکیل شہباز گرمانی کے مطابق انھیں ہراساں کرنے کے لیے نہ صرف ان کے گھر کے قریب ہوائی فائرنگ کی گئی بلکہ انھیں دھمکی آمیر خط بھی موصول ہوا تھا۔
شہباز گرمانی کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انھیں ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا جس میں انھیں کہا گیا تھا کہ ’ان کے ساتھ بھی راشد رحمان والا سلوک کیا جائے گا۔ اگر تم نے توہین رسالت کے ملزم جنید کی وکالت کی یا اس طرح کا کوئی بھی مقدمہ لڑا تو تمہارا سر قلم کر دیں گے۔‘
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے کیسز میں فیصلے دلائل یا شواہد پر نہیں ہوتے۔ مذہبی گروہ وکلاء ججز گواہوں پر پورا زور ڈالتے ہیں۔ جنید کے کیس میں تو سامنے ہے کہ ان کے وکیل کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ سیشن عدالت کے لیول پر بمشکل کوئی ایسا مضبوط کردار کا حامل جج ملے گا جو ان سے خوفزدہ نہ ہو۔ ایسا وکیل بھی بہت مشکل سے ملتا ہے جو مذہبی دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کا پریشر برداشت کر سکے۔عمومی طور پر چھوٹی عدالتوں کے جج خود کوئی ذمہ داری لینے کی بجائے معاملہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔
ہائی کورٹ میں اپیل کے بعد بھی یہ معاملہ اس پر منحصر ہے کہ جج کون ہے اور اس کا اپنا بیک گراونڈ اور رجحان کیا ہے۔ جنید کے کیس میں بھی جب تک ہائی کورٹ کی اپیل کون سنے گا یہ سامنے نہیں آ جاتا تب تک کچھ کہنا ممکن نہیں کہ اس کے ہائی کورٹ سے بری ہونے کے امکانات کتنے ہیں۔ بدقسمتی سے جنید جس معاشرے میں پیدا ہوا ہے وہ اس جیسوں کو پسند تو کبھی نہیں کرتا تھا اب برداشت کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔
BBC/DW/Web Desk