غالب کمال
جنید حفیظ پر الزام صرف اتنا تھا کہ اس نے کچھ ایسی پوسٹ شیئر کی ہیں جو خلاف اسلام اور توہین کے زمرے میں آتی تھیں۔ حالانکہ یہ پوسٹ اس نے خود نہیں لکھی تھیں۔ اور گواہ یہ بھی ثابت نہیں کرسکے کہ اس نے یہ پوسٹ شئیر کی بھی تھیں کہ نہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے الزامات کو ثابت کرنا یا رد کرنا آسان ہے۔ یہ یقیناً وہ جج صاحب جانتے ہیں جنہوں نے آج یہ سزا سنائی۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج کاشف قیوم نے اسی کیس کے فیصلے سے متعلق ملنے والے دھمکیوں کے باعث آج سے چار ماہ قبل سی پی او ملتان سے اضافی سیکیورٹی کی ڈیمانڈ کی تھی۔ مگر یہ سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ اور بالآخر آج فیصلہ جنید کے مخالف آیا۔
قانونی ماہرین کی رائے میں جنید کے خلاف ثبوت ایسے نہیں تھے جن پر انہیں سزا ہو سکتی تھی، مگر اسلامی شدت پسند جماعتوں کے بنائے ہوئے پریشر کی وجہ سے زیریں عدالتیں یہ طاقت ہی نہیں رکھتیں کہ وہ فیصلہ جنید کے حق میں دے سکتیں۔
جنید کے مقدمے کو ہر مرحلے پر لٹکایا گیا، سماعت کے وقت مولویوں کے جتھے کمرہ عدالت میں براجمان ہو جایا کرتے تھے۔ حتی کہ جنید کو اپنے وکلاء سے ملنے کے لئے بھی جیل میں تنہائی فراہم نہیں کی جاتی تھی۔ جنید سے جیل میں ہر طرح کا ناروا سلوک کیا گیا، قید تنہائی کے ساتھ ساتھ دیگر قیدیوں کو ملنے والی عمومی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا۔
عدالت میں موجود ایک دوست کے مطابق جب جنید کو کمرہ عدالت میں لایا گیا تو وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ آج انہیں رہائی مل جائے گی، جنید کافی پر امید تھے، مگر جب فیصلہ ان کے خلاف آیا تو ان کی ذہنی و جسمانی دگرگروں حالت انتہائی افسوسناک تھی۔ اسی دوست کے مطابق جنید کی صحت اچھی نہیں، اور وہ اپنی ماضی کی خوبصورت تصاویر کے مقابلے میں ایک ہڈیوں کا پنجر دکھائی دیتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے؟ کیا پاکستان میں توہین مذھب کے ایک چھوٹے چھوٹے سے چھوٹے الزام کے لئے بھی اعلی عدلیہ سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔ کیا ہر جنید حفیظ، رانا نعمان، عبدالوحید اور پروفیسر انوار احمد آسیہ بی بی ہی بنیں گے۔ یعنی کوئی بھی چھوٹی عدالت ان کے حق میں فیصلہ دینے کی طاقت نہیں رکھتی؟
مگر آسیہ بی بی کی رہائی کیسی رہائی ہے؟ آسیہ اپنی رہائی تک شدید نفسیاتی بیماری کا شکار ہو چکیں تھیں۔ کیا آپ اس رہائی کو آپ رہائی کہہ سکتے ہیں؟
پاکستان انسانی حقوق کے لئے مکمل طور پر بنجر ہو چکا ہے۔ جہاں مذھب کے نام پر انسانیت کی تذلیل جاری و ساری ہے، اور آنے والے لمبے وقت تک جاری رہے گے۔ ابھی ہمیں اس قحط میں کتنے اور راشد رحمان گنوانے ہیں کوئی نہیں جانتا۔
♦