گورو دوارہ کرتارپور صاحب کمپلیکس کی تعمیر اور بھارت اور دنیا بھر کے سکھ زائرین کے لئے اس کو کھولنے کا بہت چرچا تھا۔ اسے کپتان کی سفارت کاری کا شہکارکہا گیا جس سے مودی سرکاردفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسے کپتان کی گگلی قرار دیا تھا۔ میڈیا میں اس کو نوجوت سنگھ سدھو اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جپھی کا چمتکار قرار دیا گیا۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
سکھوں سے دوستی اور بھارت سے دشمنی ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ کا پرانا پراجیکٹ ہے۔ اس پر دہائیوں سے کام ہورہا ہے۔ سکھوں اور مسلمانوں کے باہمی مشترکہ مذہبی عقائد بارے بہت کچھ لکھوایا جاچکا ہے۔ ستر کی دہائی میں چلنے والی خالصتان تحریک کو وارم اپ کرنے میں ہمارا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
اور تواور سیاسی قیادت کے ایک دھڑے نے فوجی اشرافیہ کے قریب ہونے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ اعتزاز احسن پر یہ بے بنیاد الزام لگادیا تھا کہ انھوں نے سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرستیں بھارت کو دےدی تھیں۔ یہ الزام دراصل بالواسطہ طورپر اس حقیقت کو تسلیم کرنا تھا کہ پاکستانی ریاست سکھ علیحدگی پسندی کو مدد اور تعاون فراہم کرتی رہی ہے۔
گردوارہ کرتار پور صاحب گذشہ سو سال سے وہاں قائم ہے اور پچھلے بہتر سال سے اس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اور لیکن یکا یک ایک شور اٹھا اور ہر طرف گورودوارہ کرتار پور صاحب کی دھوم مچ گئی اور میڈیا نے مہربانوں کے تعاون سے اسے زبان زد عام بنا دیا۔
آج سوچا کیوں نہ ہم پنجابیوں کی مہان شخصیت بابا گورو نانک جنھوں نے امن، بھائی چارے اور مذہب سے اوپر اٹھ کر انسان دوستی کی تعلیم دی تھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے استھان پر حاضری دیں۔ یہ گورودوارہ لاہور سے تقریبا 85 کلو میٹر دور پنجاب کی قدیم تحصیل شکرگرھ میں واقع ہے۔
لاہور سے براستہ مریدکے ناروال تک دو رویہ اچھی سٹرک ہے لیکن نارووال سے گورودوارہ کرتار پور سڑک یک رویہ ہے۔ جوں ہی ہم مین روڈ سے گوردوارے کی سٹرک پر مڑے ایک دم سے ایسے لگا کہ ہم کسی فوجی چھاونی یا کم ازکم پولیس لائن میں آگئے ہیں ۔ قدم پر قدم پر چیکنگ اور سوال و جواب۔ پہلا سوال کہاں سے آئے ہیں؟ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فیملی ممبرز ہیں؟ سب کے پاس اصل شناختی کارڈ ہیں؟
گاڑی اور شناخت کا اندارا ج کرانے کے بعد فی کس 200 روپے کی ٹکٹ خرید کر شناختی سکین کرانے اور بائیو میٹرک کے لئے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ضابطے کی ان کاروائیوں کے بعد شٹل بس کا انتظار کرنا پڑتا اور شائد ایک ہی بس ہے جو زائرین کو لیجاتی اور واپس بھی چھوڑتی ہے۔
گورودوارہ کے اندر داخل ہونے سے پہلے ایک دفعہ پھر تلاشی دینا پڑتی ہے۔ اس تمام تر تردد کے بعد جب گوردوارہ کمپلیکس میں داخل ہوتے ہیں تو جا بجا وردی اور سفید کپڑوں میں ملبوس انٹیلی جنس اہلکار نظر آتے ہیں جو اپنی چال ڈھال ہئیر کٹ اور حرکات و سکنات سے صاف پہچانے جاتے ہیں۔ اگر آپ کچھ منٹ بھارت سے آئے کسی سکھ یاتری سے بات کرنے لگیں تو یہ اہلکار درمیان میں آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور یوں گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔
ٹکٹ کے دو سو روپے فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن وصول کرتی ہے جب کہ گولک میں جو چندہ بھارتی سکھ یاتری ڈالتے ہیں وہ متروکہ وقف املاک بورڈ لیتا ہے۔ معاہدے کے مطابق ہر روز پانچ ہزار سکھ یاتریوں نے کرتار پور صاحب آنا تھا لیکن 800 اور 1200 کے درمیان سکھ زائرین آتے ہیں۔ پاکستان سے جانے والے زائرین کی تعداد اس سے کہین زیادہ ہے۔
ایک اہلکار کے مطابق چھٹی والے دان 12000 سے 15000 ہزار تک پاکستانی گوردوارہ میں آتے ہیں۔ گوردوارہ میں پاکستانی زائیرین کے لئے کچھ سامان دلچسبی کا نہیں ہے۔ ایک آدھ گھنٹے بعد وہ بور ہوجاتے ہیں اور واپسی کا سفر شروع کردیتے ہیں۔ اگر کوئی پاکستانی گوردوارے کے اندر جانے لگے تو اس یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ مسلمان ہو یا سکھ اگر جواب مسلمان ہو تو اندر نہیں جانے دیا جاتا۔
گوردوارہ ایک وسیع ماربل کا میدان ہے جہاں ادھر ادھر لڑھکنے کے بعد پاکستانی زائرین واپسی کی راہ لیتے ہیں۔
♦