رزاق کھٹی
پرویز مشرف کے گناہوں کی فہرست میں کیا کیا نہیں، کارگل کا ایڈونچر انہوں نے کیا، ہمارے سینکڑوں فوجی جوانوں کو شہید کروادیا، نتیجے میں وزیراعظم نواز شریف کو اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن سے منت سماجت کرکے جان چھڑانا پڑی، کیونکہ بھارتی وزیر اعظم جنگ کے لئے تیار ہوچکے تھے۔یہ بات بھی اب کھلا راز ہے کہ پرویز مشرف نوازشریف کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
نائین الیون کے بعد پاکستان کو ایک ایسی جنگ کے جھونک دیا گیا جس کے نتیجے میں ساٹھ ہزار لوگ مارے گئے اور ملکی معیشت کو دو سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا، لال مسجد ،بارہ مئی، اکبر بگٹی کے واقعات
کی وہ ان ڈائریکٹ اونر شپ لیتے رہے، محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو جائے شہادت سے تمام شواہد مٹانے کے لئے اسے دھلوادیا۔
ہزاروں پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا، اور اس کے بدلے ذاتی طور پر لاکھوں ڈالر وصول کیے۔مشرف دور پاکستانی فوج کے لئے انتہائی نازک دور تھا جب فوجی جوانوں کو وردی میں شہروں میں جانے سے روک دیا گیا۔
اب جب پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ آیا ہے تو اس فیصلے پر جو ردعمل آیا ہے اس میں لوگوں کی بڑی اکثریت کو سزائے موت پر اعتراض کم اور مردہ مشرف کو گھسیٹ کر ڈی چوک پر لانے اور تین دن لٹکانے پر شکوہ زیادہ ہے۔تین دن مردہ مشرف کو لٹکانے والے معاملے پر خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار کے فیصلے سے متفق دوسرے جسٹس شاہد کریم نے بھی مخالفت کی ہے۔
اس کیس میں ن لیگ کا کردار بڑا حیران کن ہے، نوازشریف نے یہ مقدمہ درج کروایا تھا، اب وہ ملک میں نہیں، عوامی عہدے کے لئے وہ نااہل ہوچکے ہیں، ان کی سیاسی وارث مریم نواز بھی اس فیصلے پر خاموش ہیں، شہباز شریف کی تو بات ہی اور ہے، بلاول بھٹو کا ردعمل سیاسی بھی تھا اور جذباتی بھی، کیونکہ وہ اپنی ماں کو کھوچکے تھے، ن لیگ نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کا کندھا استعمال کیا اور اسے تنہا چھوڑ دیا، مولانافضل الرحمن بھی معلوم نہیں کہاں ہیں!۔
اس بار خصوصی عدالت کے فیصلے پر آئین کی پاسداری کی دعویدار جماعتوں کو کھل کر اور شدت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے، کیونکہ پہلی بار اعلی عدلیہ نے ایک ایسی روایت قائم کی ہے، جس کا تصور تک اس ملک میں ممکن نہیں تھا، سیاسی جماعتیں اب ملک میں آئین کی حکمرانی کے ساتھ کھڑی ہوں، بلکہ سپریم کورٹ کے آرمی چیف مدت ملازمت کیس میں بھی کردار ادا کرکے اس ملک کے جاری کنفیوژن کو ختم کریں کہ فلاں تین سال آرمی چیف ہوگا اور فلاں چھ سال۔
ملک کو آگے لیجانا ہے تو فیصلے کریں، ورنہ شکایت نہ کریں!۔
♦