ڈاکٹر محمد زبیر
انڈیا سے 1965 اور 1971 اور 1999 میں شکست کھانے کے علاوہ افواج پاکستان کو ملک کے اندر اگر کسی نے (قانونی، آئینی، سیاسی اور اخلاقی طور پر) جھنجھوڑ کرچیلنج کیا تو وہ صرف اور صرف پی ٹی ایم کا بیانیہ اور اسکی سیاسی جدوجہد ہے۔
حکومتی اداروں (بشمول عدلیہ) میں کام کرنے والے افراد اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ وہ بھی ہماری طرح انسان ہوتے ہیں، احساسات رکھتے ہیں، معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر نظر رکھتے ہیں، معاشرے میں سیاسی عمل کو ہوتا دیکھتے ہیں اور اس میں تشکیل دینے والے بیانیہ پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں اور بیک وقت اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔
پی ٹی ایم نے جس انداز میں قانون و آئین کی حکمرانی اور اس میں درج انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر پشتونوں پر ہونے والے ریاستی جبر کا مقدمہ فوج کیخلاف پیش کیا اور فوج کے ہاتھوں قانون و آئین کی خلاف ورزی کے خلاف جس انداز میں سیاسی احتجاج ریکارڈ کیا وہ پاکستان میں کوئی بھی فرد، سیاسی پارٹی،تحریک یا کوئی ادارہ نہیں کر سکا تھا۔
پی ٹی ایم نے لگی لپٹی سے کام نہیں لیا بلکہ ببانگ دہل اور جرات کے ساتھ کالے کو کالا اور سفید کو سفید کہا۔ فوج کو دہشت گردوں کا سرپرست، ساتھی اور معاون کار کہا اور اُس پر آئین و قانون کی پامالی کا فردِ جرم عائد کیا۔
ایک وقت ایسا تھا کہ ملک کے اندر کسی فرد، ادارے، سیاسی پارٹی یا تحریک میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ پی ٹی ایم کیطرح آئین و قانونی کے دائرے میں رہتے ہوئے اور عدم تشدد کے راستے فوج کو اس جراتمندانہ اور مدلل انداز میں للکار سکے اور اس پر اپنی اخلاقی اور سیاسی فتح قائم کرسکے۔
ایسا کرکے پی ٹی ایم نے ریاستی جبر کے شکار مجبور و بے کس و لاچار پشتونوں کے دلوں سے فوج کا خوف نکالا اور انہیں زبان دی۔ نہ صرف یہ بلکہ فوج کے ہاتھوں ستم رسیدہ اور خوف زدہ وسطی پاکستان کے لوگوں، سیاسی پارٹیوں، انکے لیڈروں اور اداروں کو بھی سیاسی جرات کے انجیکشن لگائے۔ جنرل مشرف اور کور کمانڈروں کو آئین شکن اور غدار قرار دینا کوئی آسان کام نہیں۔
پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اس کے لیے بھی جرات درکار ہوتی ہے۔ وقار سیٹھ جیسے جج صاحبان بھی معاشرے میں تشکیل پانے والے بیانیے اور اس کے پیدا کردہ جرات کے ذرائع سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ پی ٹی ایم کے بیانیے کےمطابق ریاست اور اسکے شہریوں اور اقلیتی اقوام کے درمیان پائے جانے والے جائز تعلق کی واحد بنیاد سماجی معاہدہ ہوتا ہے جسکا اظہار آئین کی شکل میں ہوتا ہے۔
پی ٹی ایم کہتی رہی ہے کہ اگر آئین کو بیچ میں سے نکال دیا جائے تو پھر اس تعلق کی بنیاد صرف اور صرف جبر ہی ہوگا۔ اور جبر پر قائم ریاست دیرپا نہیں ہوسکتی اور اس کو طاقت کے ذریعے توڑنے کی جائز سیاسی دلیل ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ مشرف کو غدار قرار دیے جانے والے خصوصی عدالت کے فیصلے میں آئین کا ایک سماجی معاہدے ہونے کی طرف اشارہ تین بار کیا گیا ہے اور عدالت نے کہا کہ آئین کی یہ حیثیت اسے ایک مقدس کتاب بناتی ہے اور اس کی معطلی کو سب سے گھناؤنا جرم قرار دیتی ہے۔
یہ حصہ پڑھتے وقت مجھے اس میں پی ٹی ایم کے بیانیے کی بازگشت سنائی دی۔ یعنی پی ٹی ایم اور عدالت آئین کو ایک مقدس سماجی معاہدہ سمجھتے ہیں اور فوج کو اسکی پامالی کا مجرم۔ جج صاحبان معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، اسکے بیانیے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس بیانیے کو متاثر بھی کرتے ہیں۔ سماجی تحریکیں اُن بیانیوں کے انجن کے طور پر کام کرتی ہیں۔ کس طرح عدالتیں اور وقار سیٹھ جیسے جج صاحبان پی ٹی ایم کے بیانیے کو متاثر کرتے ہیں اس کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔
جب پی ٹی ایم افواجِ پاکستان اور اسکے اداروں کے ہاتھوں پشتونوں پر ہونے والے مظالم کی کہانیاں سنا رہی تھی تو انہیں وسطی پاکستان میں کوئی سننے کو تیار نہ تھا۔ لیکن جسٹس وقار احمد سیٹھ کی پچھلے سال کے عدالتی فیصلے نے پی ٹی ایم کے بیانیے کو آواز دی اور اس پر عدالتی مہر ثبت کردی۔ اس طرح اس عدالتی فیصلے نے پی ٹی ایم کے بیانیے کو صحیح قرار دے کر اسے قوت عطا کی۔
♦