لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے وکلا کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیتے ہوئے وکلا سے کہا،” آپ کو ہسپتال پر حملے کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ جب کہ اس طرح تو جنگوں میں بھی نہیں کیا جاتا۔ آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم کس دکھ میں ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے اور جو کچھ وکلا نے کیا ہے وہ جنگل کا قانون ہے۔
جسٹس علی باقرنجفی نے ، پی آئی سی واقعہ میں ملوث وکلا کی درخواست ضمانت کے دوران سماعت وکلا پر خوب برسے، انھیں خوب لعن طعن کی۔ پی۔آئی۔سی پر حملےکوتاریخ کاسنگین اور واقعہ قراردیا اوروکلا کومتنبہ کیا کہ ان کی صفوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جنھیں نکال باہرکرنا بہت ضروری ہے۔
پی۔آئی۔سی کا واقعہ بلاشبہ قابل مذمت ،شرمناک اورناقابل دفاع ہے۔لیکن جج صاحب سے سوال ہے کہ انھوں نےعدلیہ میں موجود کالی بھیڑوں بارے بھی کبھی سوچا ہے۔ ہماری عدلیہ کی آج تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کو آج جن سیاسی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے اس حوالے سے ہماری اعلی عدلیہ کا کردار بہت گھناونا ہے۔ہر مارشل لا اور ہر آمر کو ہماری عدلیہ نے قانونی اورآئینی جواز مہیا کیا ہے۔مارشل لا اورآمریت سے بڑا اجتماعی تشدد کوئی اورنہیں ہوسکتا۔ مارشل لا اورآمریت پورے سماج اورریاست کو یرغمال بنالیتی ہے۔ اختلاف اور تنقید کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
جب بھی سیاسی حکومت نے عدلیہ میں اصلاحات یا ججز کی تقرری کا طریقہ طے کیا ۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے ہی اس کی مخالفت کی۔ آج تک اعلی عدلیہ کے کسی جج نےمارشل لا اورآمریت کی حمایت اوراسے قانونی اورآئینی جواز فراہم کرنے والےججوں بارے کبھی کچھ نہیں کہا۔ بھٹو کو پھانسی دینے والے ججز ہوں یا جنرل ایوب خاں، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی مارشلا وں کو آئینی جواز اور عدالتی کور دینے والے جج صاحبان ان کے بارے میں ہماری عدلیہ کے سٹنگ ججز نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ اگر وکلا نے پی۔آئی۔ سی پر حملہ کرکے وکلا برادری کو بدنام کیا ہے توججوں کا کردار تو اس اعتبار سے زیادہ بھیانک اورگھناونا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق صدر اور وکیل رہنما حامد خان کے بقول وکیلوں اور ڈاکٹروں کے مابین تنازعے کے پیچھے وہ قوتیں ہیں، جو کشیدگی کو بڑھاوا دے کر ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہیں، جن سے شہری آزادیاں سلب کی جا سکیں۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وکلا اور ڈاکٹروں کے مابین تنازعے کو شدت دینے میں وکلا، ڈاکٹروں اور حکومت تینوں کی غلطیاں شامل ہیں۔ ان کے بقول یہ تنازعہ معمولی بات سے شروع ہوا۔ حکومت حکمت سے کام لے کر اسے سلجھا سکتی تھی، اسے ختم کروا سکتی تھی لیکن حکومت نے پہلے ایف آئی آر درج کرنے میں دیر کی، پھر وکلا کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
اس کے باوجود فریقین نے بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات طے کر لیے لیکن پھر کسی خفیہ ہاتھ نے ایک ڈاکٹر کی ایسی ویڈیو وائرل کر دی، جس میں وکلا کے خلاف تضحیک آمیز خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔
حامد خان نے کہا کہ اس تنازعے کو بڑھاوا دینے والے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں شہری آزادیوں کی جنگ لڑنے والے پریشر گروپس کو متنازعہ بنا کر کمزور کیا جائے۔ اُن کے الفاظ میں پاکستان میں پہلے ہی ایک سویلین روپ میں ڈکٹیٹر شپ جاری ہے، انسانی حقوق سلب ہو رہے ہیں اور میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ ان حالات میں میڈیا کے بعد اُس وکلا برادری کو تنہا کیا جا رہا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے غلط اقدامات کے خلاف بات کر سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ انہیں شدید خطرات لاحق ہیں کہ پاکستان میں ایک مخصوص صورتِ حال پیدا کر کے جمہوری قوتوں کے خلاف ایک سازش کی جا رہی ہے۔
Web Desk