محمد حسین ہنرمل
” پچھلے دو تین سال ضلع لکی مروت اور بنوں کے ادب کے لئے مسلسل عام الحزن ثابت ہو رہے ہیں۔تین برس قبل پروفیسر رحمت اللہ درد چل بسے جن کی رحلت سے پشتو غزل کے میدان میں ایک نہ پر ہونے والا خلاء پیدا ہوا ۔پھر گزشتہ سال ضلع لکی مروت ہی سے تعلق رکھنے والا ایک اور درویش صفت شاعر عمر دراز مروت طویل علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ مرحوم عمر دراز بھی یاروں کے یار اور ہر دلعزیز شاعر تھے۔
رواں سال چند ہفتے پہلے ضلع بنوں کے بزرگ اور خوش آواز شاعر اور ادیب غازی سیال کی ارتحال کی خبر آئی جس کی موت نے بھی ادبی حلقوں کو خاصا سوگوار کردیا – چار روز پہلے رات کو پھر لکی مروت کے ایک اور خوش خلق اور نامور شاعر سید ظہور شاہ المعروف افگار بخاری کی شہادت کی روح فرسا خبر سوشل میڈیا پر چل پڑی ۔
افگار بخاری چونکہ مسلک کے اعتبار سے سنی نہیں تھے یوں غالب گمان یہی ہے کہ مرحوم فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے ظالموں کی گولی کا نشانہ بن چکے ہوں گے ۔ لکی مروت کے اس منکسر المزاج اور محفلوں کی روح کو گرمانے والے شاعر اس سے پہلے بھی فرقہ پرستوں کے قاتلانہ حملوں کی زد میں آئے تھے تاہم اس مرتبہ قاتلوں نے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا ، انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
شہید افگار بخاری اگرچہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ شیعوں سے زیادہ سنی المسلک لوگوں میں زیادہ محبوب اور مقبول تھے۔ افگار نے اپنے آپ کو فرقہ پرستی کی لعنت سے اس حد تک مبرا کیا ہوا تھا کہ ان کے جنازے میں نہ صرف بے شمار سنی العقیدہ لوگوں کی ایک جم غفیر شریک ہوئی بلکہ ان کی نماز جنازہ بھی ایک سنی عالمِ دین مولوی حافظ امان اللہ خان نے پڑھائی۔
افگار بخاری نے 1962 کو لکی مروت کے ایک معزز پشتون خاندان میں آنکھ کھولی ، آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے کہ انہوں نے شعر کا ملکہ حاصل کر لیا۔ پہلے اردو زبان میں شعر کہنا شروع کیا جبکہ بعد میں کلاچی کے ممتاز شاعر مرحوم طاہر کلاچوی کی شاعری سے متاثر ہونے کے بعد انہوں نے خود بھی پشتو زبان میں شعر کہنے اور لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کی شاعری پر عوامی رنگ اگرچہ زیادہ غالب تھی لیکن کمال کی غزل لکھتے تھے ۔ ظلم و بربریت سے نفرت اور امن و بھائی چارے کا پرچار شہید افگار بخاری کی شاعری کی نمایاں خصوصیات تھیں ۔
سردار علی ٹکر اور استاد خیال محمد جیسے معروف پشتو موسیقاروں کے علاوہ بے شمار دیگر موسیقاروں نے ان کی غزلیں اور گیت گائے۔ چند سال پہلے اپنی ایک انٹرویو میں افگار بخاری نے کہا تھا کہ وہ مختلف شعری اصناف یعنی غزل، نظم، مثنوی، رباعی اور فوک لور میں اتنی زیادہ شاعری تخلیق کرچکا ہے کہ اس سے کئی مجموعے بن سکتے ہیں لیکن موسیقی کے ساتھ زیادہ تعلق کی بنا پر وہ ابھی تک اپنی شاعری کو کتابی شکل نہیں دے پایا ہے ۔
افگار بخاری کی شہادت سے پشتو ادب میں مزید خلا پیدا ہوا جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم بخاری کو اپنے جوار رحمت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کی پسماندہ فیملی کو صبر وتحمل عطا کرے۔اس مختصر کالم کے آخر میں اپنے قارئین کے لئے شہید افگار بخاری کی ایک مشہور پشتو غزل اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں،
لا می چی زڑگی تہ را نزدے نہ وے
لا مو چی تر منزہ فاصلے نہ وے
مابہ درنہ سر صدقہ کڑے وے
تاتہ کہ پیغور د زمانے نہ وے
ولی به افگار داسے مڑہ مڑہ ژڑل
شکلے کہ دے سترگے داسے مڑے نہ وے
ترجمہ: کاش ! تم یا تو میرے دل میں بسیرا نہ کرتے یا پھر ہمارے بیچ اتنے فاصلے نہ ہوتے ۔
تم پر اپنی جان فدا کردینا میرے لئے بڑا آسان ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ پھر تم زمانے کے طعنوں سے کیسے نجات پاوگے؟
افگار بخاری سرنگوں حالت میں ایسے آٹھ آٹھ آنسو نہ بہاتے اگر تیری خوبصورت آنکھیں ایسی خوابیدہ نہ ہوتیں ”
ایک اور غزل میں کیا خوب منظر کشی کرچکے ہیں،
ھغے تہ ووایہ چی یو زل دی پہ بام و خیزی
په زکندن یمہ چی ساہ می پہ ارام و خیزی
افگار چی کلہ ستا پہ پل سجده د مینے وکڑی
د ستڑی ژوند ستڑی سفر ئے پہ یو گام و خیزی ۔
ترجمہ: اسے کہہ دو کہ ایک مرتبہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ جائیں تاکہ انہیں دیکھ کر میری روح سہولت سے پرواز کرے ۔
افگار جب تیرے قدموں کے نشانات کے اوپر محبت کا سجدہ کرلیتا ہے تو ان کی پوری زندگی کی تھکاوٹ ایک لمحے میں نکل جاتی ہے“۔
♦
One Comment