ایک وقت تھا جب پاکستان میں یہ جھوٹ بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا تھا کہ اگر اصل اورحقیقی اسلام دیکھنا ہو تو سعودی عرب میں دیکھ لیں۔ وہاں ہر سعودی شہری نماز پنج وقتہ پڑھتا ہےعورتیں مکمل اسلامی پردہ کرتی ہیں، نماز کے وقت تمام دوکاندار دکانیں چپٹ کھلی چھوڑ کر نماز کے لئے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ باہمی لین دین میں سعودی شہری ایمانداری اور دیانت داری کی بلندیوں پر ہیں۔ سعودی حکمران اسلامی اخلاق کا نمونہ ہیں اور سعودی کا نظام عدل اپنی مثال ہے۔ چور کے ہاتھ کاٹے جاتے اورقاتل کا سر مسجد کی سیڑھیوں پر قلم کیا جاتا ہے۔
لیکن اس جھوٹ کی بتدریج قلعی کھلتی چلی گئی اور اس جھوٹ کو ایکسپوز کرنے میں بنیادی رول ان پاکستانی محنت کشوں نے ادا کیا جو بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں سالہا سال سے مقیم تھے اور جو سعودی سماجی اور ریاست کا براہ راست مشاہدہ اور تجربہ کرتے تھے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے سعودی فنڈنگ کے زور پر سعودی شاہی خاندان کی امیج بلڈنگ میں بنیادی رول ادا کیا اور اپنے اس کام کا بھرپور معاوضہ وصول کیا۔
سعودی عرب سماجی اور معاشرتی طور پرایک دقیانوسی اورپسماندہ سماج ہے جس کی خوشحالی جو محض کچھ فی صد شہریوں تک محدود ہےتیل کی پیداوار کی مرہون منت ہے۔ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کرسعودی آبادی کا بڑاحصہ صحرامیں بھیڑبکریاں اوراونٹ چراتا ہے۔ اورآج بھی سعودی عرب کی بہت سی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گذارنے پرمجبورہے۔ مکے اورمدینے کے درمیان پانچ سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے اورسڑک کے دونوں طرف سوائے سیاہ اور چٹیل پہاڑوں اور صحرا کے سوا کوئی قابل ذکر شہراورقصبہ نہیں ہے۔
ہمارے ہاں سے بغرض عمرہ اورحج سعودی عرب جانے والے خواتین و حضرات ایک کلو میٹر کے دائرے میں گھومتے ہیں اس لئے انھیں سعودی معاشرے بارے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ وہ حرمین کے ارد گرد موجودبڑے بڑے ہوٹلزاورملٹی سٹوریز پلازوں کو دیکھ کرمرعوب ہوجاتے ہیں اوراسے سعودی عرب کی ترقی کا نشان سمجھ کر داد و تحسین کرتے ہیں۔ عام سعودی شہری سے ان کا ربط ضبط ہوتا نہیں اس لئے انھیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ زمینی حقایق کیا ہیں۔
نماز کے وقت دوکانیں چند منٹوں کے لئے ضرور بند ہوتی ہیں لیکن ان پر بھاری بھرکم تالےلگائے جاتے ہیں۔ خانہ کعبہ اورروضہ رسول صلعم کے گردو نواح میں لاتعداد مختلف اشیا کی دکانیں ہیں اوردکاندار اتنے ہی دو نمبر ہیں جتنا ہمارے ہاں کے دوکاندار ہیں بلکہ ہمارے ہاں کے دوکانداروں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہیں۔
عمرہ اور حج کے لئے جانے والوں کو زیادہ سے زیادہ چکر دینا اور ہیرا پھیری کرنا ہی ان کے کاروباراوردکانداری کا بنیادی پتھر ہے۔پولیس اورقانون نافذ کرنے والوں اداروں کے اہلکار بدتمیزاورانتہائی اکھڑ ہیں جنھیں نہ عورت کا احترام ہے اور نہ ہی کسی سنئیر شہری کا۔سر ضرور قلم ہوتے ہیں لیکن غیر ملکیوں کے۔ سعودی شہری عام طور پر دیت کی ادائیگی کرکے جان بخشی کرالیتا ہے۔
پریس نہ ہونے کے برابر ہے۔ اخبار ڈھونڈنا پڑتا ہے اور جو پریس ہے وہ انتہائی محدود اوریکطرفہ ہے۔ایک پاکستانی کارکن جو وہاں کئی سال سے کام کررہا ہے کہ بقول خوشحال سعودی شہریوں کے دو ہی شوق ہیں زیادہ سے زیادہ بیویاں ور اچھی سے اچھی سے گاڑیاں رکھنا۔جب ایک بیوی سے دل بھر گیا تو دوسری بیوی کو گھر لے آتے ہیں اگر سعودی عرب سے نہ ملے تو بھارت کی ریاست آندھر پردیش سے خرید لاتے ہیں۔
حرمین ان کے آمدن کا ذریعہ ہے اور ان کی معیشت کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل اس لئے ان کی توسیع اور بہتری ہمہ وقت جاری و ساری رہتی ہے لیکن جو لوگ یہاں عبادت کے لئے آتے ہیں ان کی سعودی حکام کے نزدیک کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔
جدہ ایئر پورٹ کا سب سے تھرڈ کلاس ٹرمینل عمرہ زائرین کے لئے مختص ہے۔ ٹرانزٹ لاونج بھیڑ بکریوں کے شیڈ جیسا ہے جس میں بیک وقت سینکڑوں افراد کو بند کردیا جاتا ہے۔ ایر پورٹ پر موجود سعودی اہلکار مسافروں سےاسی طرح رشوت وصول کرتے ہیں جس طرح لاہور کراچی اور اسلام آباد کے ائیر پورٹس پر پاکستانی اہلکار لیتے ہیں۔
ملٹی سٹوری پلازے لاتعداد، کثیر المنزلہ ہوٹلوں کی بھرمار، شاندارموٹر ویز یہ سب سعودی عرب میں موجود ہے لیکن آبادی کا بڑا حصہ غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تعلیم ندارد علاج مفقود۔ روزگار نہ ہونے کے برابر۔موٹر ویز ضروری ہیں پلازے اور ہوٹلز بھی ہونا چاہیں لیکن ریاست جب تک عام شہری کو تعلیم علاج اور روزگار فراہم نہیں کرتی اس کو ترقی یافتہ ریاست نہیں کہا جاسکتا۔
♦
One Comment