امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد ہفتہ کو کابل سے دوحہ پہنچ گئے، جہاں تین ماہ کے تعطل کے بعد افغانستان میں جنگ بندی کی کوششوں پر بات چیتدوبارہ شروع ہوگئی ہے۔
ستمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ اس وقت بات چیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جب طالبان کے مختلف فیکشنز نے خود کش حملوں میں شدت پیدا کر دی تھی۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اگر طالبان واقعی افغانستان میں امن کے حامی ہیں تو پہلے انہیں دہشت گرد حملے بند کرنے ہونگے۔ جبکہ طالبان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی تعریف کی جائے اگر امریکہ حملے کرے تو وہ دہشت گردی نہیں مگر طالبان کے حملوں کو دہشت گردی کہا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ دوحہ میں ہونے والے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں افغان حکومت فریق نہیں تھی۔جبکہ افغان حکومت کا موقف ہے کہ اگر طالبان واقعی امن چاہتے ہیں تو انہیں افغانستان میں جاری جمہوری عمل میں حصہ لینا چاہیے۔جبکہ طالبان جمہوریت کی بجائے اسلامی شریعت پر مبنی حکومت چاہتے ہیں۔
بعد میں پاکستان کی میزبانی میں اکتوبر میں افغان طالبان کے ایک اعلیٰ وفد نے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ اسلام آباد میں ملاقات کی اور فریقین کے درمیان رابطے بحال ہوئے۔
امریکی حکومت کی خواہش ہے کہ اگلے سال امریکا میں صدارتی الیکشن سے پہلے کوئی معاہدہ طے پائے جائے تاکہ ٹرمپ افغانستان سے وعدے کے مطابق ہزاروں امریکی فوجی نکال سکیں۔
پچھلے ہفتے ٹرمپ نے بگرام کے امریکی اڈے پر مختصر غیر اعلانیہ دورے میں کہا تھا کہ طالبان بھی امریکا کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان ميں نیٹو ممالک کے فوجیوں کے علاوہ تيرہ ہزار امريکی فوجی تعينات ہيں۔
توقع ہےکہ امریکا اور طالبان کے درمیان کسی ممکنہ سمجھوتہ کے بعد طالبان اور کابل میں قائم افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ افغانستان میں اٹھارہ سال سے جاری قتل و غارتگری کے خاتمے کا بڑا دآر ومدار ان مذاکرات کی کامیابی پر منحصر تصور کیا جاتا ہے۔
DW/Web Desk