دسواں ستارہ

حسن مجتبیٰ

دسواں ستارہ بی بی سی‘ ! یہ بات 1977میں حیدرآباد میں شیعہ عالم علامہ نصیرالاجتہادی نے اپنے مخصوص انداز میں رسالہ روڈ پر مشہور کراچی ہوٹل کے سامنے پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت میں منعقد ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے دوران کہی تھی۔

یہ بات علامہ نصیر الاجتہادی نے اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہونیوالی حزب مخالف کی نو سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اتحاد پاکستاں قومی اتحاد (پی این اے) جسے ’نو ستارہ اتحاد‘ بھی کہتے تھے کے عروج کے دنوں میں کہی تھی۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھٹو کے خلاف اٹھنے والی تحریک یا ہر بات کو لاٹھی گولی سے دبایا جا رہا تھا اور شام کو حزبِ مخالف کے اثر والے علاقوں میں لوگ کرفیو زدہ گلیوں اور محلوں میں بیٹھکوں یا کہیں کہیں تھڑوں پر جمع ہوتے اور بی بی سی سے تازہ صورتحال پر خبریں اور سیربین سنا کرتے۔

ان خبروں اور تبصروں پر اکثر پی این اے یا’ نو ستاروں‘ والے لوگ خوش یا مطمئن ہوتے جبکہ بھٹو کے حامی غصہ کرتے اور انہیں جھوٹ یا مبالغہ قرار دیتے۔

بی بی سی کے مارک ٹلی کو لوگ حیدرآباد اور دیگر شورش زدہ بڑے شہروں میں جلوسوں پر برستی آنسو گیس اور فیڈرل سیکیورٹی فورس کی لاٹھیوں کے درمیان بھاگتے دوڑتے یا موجود دیکھتے۔ نو ستاروں والوں کی خبریں دینے کی وجہ سے علامہ نصیرالاجتہادی نے بی بی سی کو ’دسواں ستارہ‘ قرار دیا تھا۔

بھٹو اور پیپلز پارٹی کے حامیوں کیلیے بی بی سی زیادہ دن ’دسواں ستارہ‘ نہیں بنی رہی اور تھوڑے دن بعد بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا۔ اخبارات کو روزمرہ کی خبروں پر سنسر سے گزرنا پڑتا تھا۔ ہر اخبار کی کاپی پریس جانے سے پہلے محکمۂ اطلاعات کے سترہویں گریڈ کے افسر کو دکھائی جاتی اور یہ اس افسر کی صوابدید پر ہوتا کہ کونسی خبر یا تصویر قابلِ اشاعت ہے اور کونسی نہیں۔

کئی مرتبہ تو اخبارات کے صفحات خالی بھی جاتے کہ انکو’ پُر‘ کرنےکے لیے کسی فلمی ستارے کی تصویر بھی سنسر کی زد میں آتی۔ بھٹو یا اس کے خاندان اور پارٹی والوں کی تصاویر کی اشاعت تو’سنگین ترین‘ جرائم تھے۔

ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے نغموں اور اسکرپٹ میں رات، گھٹن، اور خراب موسم جیسے الفاظ بھی ’ سنسر‘ کیے جاتے۔پانچ جنوری سنہ 1979 کو ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پروگرام مینیجر، پروڈیوسر اور دیگر کچھ ملازمین کو محض اس لیے گرفتار کیا گیا کہ جس دن انھوں نے فلم ’ زندگی‘ کا نغمہ نشر کیا وہ دن بھٹو کی سالگرہ کا دن تھا۔

بھٹو کی قید،ان کے خلاف چلنے والے مقدمۂ قتل اور اس میں ان کو سزائے موت اور اس پر ہونے والے احتجاج کی خبریں سننے کے لیے ملک کے کونوں کھدروں میں لوگ شام ہوتے ہی ٹرانسسٹر ریڈیو سیٹوں کے گرد جمع ہو جاتے۔

پاکستان میں صرف دو گردنیں اور ایک پھانسی ہے‘ ، یا ’مردہ بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ خطرنک ہوگا‘ جیسے بی بی سی کے مبصروں کے حوالوں سے اس اداس بہار کی رات بھٹو کی پھانسی پر ہونے والے تبصرے مجھے آج بھی یاد ہیں لیکن بی بی سی کے تبصرے تو ہوتے ہی ہوتے لیکن اس کے سننے والوں کے اپنے تبصرے بھی کم دلچسپ نہیں ہوتے تھے۔

بھٹو کے دورِ حکومت میں قید کیے جانیوالے جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل کیلیے افواہیں یہ تھیں کہ بھٹو حکومت نے دورانِ قید ان سے جنسی زیادتی کروائی تھی اور یہ بھی افواہیں تھیں کہ میاں طفیل جنرل ضیاءالحق کے رشتے میں ماموں لگتے تھے۔

بھٹو کے چہلم والے دن لوگوں نے گڑھی خدا بخش میں نہ صرف بھٹو سے ثابت قدم اور وفادار رہنے والے رہنماؤں کو بلکہ بی بی سی کے نمائندے کو بھی کاندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ پی پی پی کے جیالے تب یا تو فقط بی بی سی کی خبریں سنتے یا پھر روزنامہ ’امن‘ میں جمعہ خان کے قلم سے لکھے ہوئے کالم ’ تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی‘ پر عش عش کر اٹھتے۔

اس سے بہت پہلے جب بی بی سی1971میں سابق مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کیخلاف فوجی کاروائیوں کی خبریں دیا کرتی تو بہت سے مغربی پاکستانی بی بی سی کے انگریزی مخفف کو ’بیکار بکواس کمپنی‘ کے معنی میں پیش کرتے۔

یہ آج جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ پر بلوچستان پر چھپ رہا ہے یہ بھٹو کے دور حکومت والے آپریشن میں ناممکن تھا۔ تب بلوچستان پر فوج اور بھٹومخالف خبریں اور مواد یا تو بلوچوں کی حمایت اور ہمدرد تنظیموں کی سائیکلو سٹائل پرچوں یا پھر آئی ایچ برنی کے انگریزی ہفت روزہ ’ آؤٹ لک‘ اور لندن سے سابق ایئر کموڈور جنجوعہ کی ادارت میں نکالے جانیوالے ’پاکستان ڈیموکریٹ‘ میں چھپتے یا پھر بی بی سی سے نشر ہوتے۔

کوئٹہ کے ایک صحافی کی رپورٹ کے مطابق آج بھی بلوچستان کے مبینہ طور قائم کیمپوں میں بلوچ قوم پرست جنگجو بی بی سی کی نشریات با قاعدگی سے سنا کرتے ہیں۔

جنرل ضیاءالحق کے دنوں میں خصوصی فوجی عدالت میں تب کی کمیونسٹ پارٹی کے جام ساقی سمیت رہنماؤں اور کارکنوں پر بند کمرہ عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران صحافیوں کی موجودگی پر پابندی تھی تو بی بی سی کے انگریز نمائندے کو جام ساقی کے ساتھی قیدیوں کا ’پٹھان رشتہ دار‘ بنا کر عدالت کے اندر لے گئےتھے اور اسی طرح جام ساقی کیس کی کاروائی بی بی سی سے نشر ہوئی۔

سندھ کے بہت سے ڈاکو اور قوم پرستوں کی یہ مبینہ خواہش ہوتی کہ وہ کوئی ایسا کام کریں کہ ان کا نام بی بی سی پر آئے۔ سندھ کے بہت سے ڈاکو سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں بی بی سی کے سننے والوں کو میرا ایک دوست صریر پنوھر ’متقی‘ کہتا جس کے عوامی معنی کسی بھی نشے کا رسیا ہونا ہے۔ ایسے سننے والوں میں سے بہت سوں کو مارک ٹلی اور اسکی رپورٹیں آج بھی یا د ہیں۔

اس وقت بہت سے لوگ بس کہتے کیونکہ یہ خبر بی بی سی سے آئی ہے اسی لیے سچی ہوگی اور کچھ لوگ تو اپنے ذہن کی اختراع سے بنائی ہوئی افواہیں دوسرے کو سناتے ہوئے کہتے ’میں نے یہ خبر خود بی بی سی سے آئی ہے‘۔

میں نے پاکستان میں ایسے لوگ دیکھے جو نسل در نسل بی بی سی کی اردو ہندی سروس سنتے آئے ہیں اور وہ اپنے آپ کو کشور کمار اور انکے گانوں کی طرح ہر دور کا ہمعصر رکھتے آئے ہیں۔

سندھ ميں ضیاءالحق کے خلاف تحریک کے دنوں ميں لوگ بی بی سی کے گرویدہ ہوگئے۔ وہ جیلوں میں بند سیاسی یا غیر سیاسی قیدی ہوں، صبح و شام گرفتاریاں پیش کرنے والے سیاسی کارکن ہوں کہ کسان، وکلاء، اساتذہ اور پولیس والے شام آٹھ بجے اور رات دس بجے بی بی سی ’باجماعت، سنا کرتے۔

سندھ میں جو بھی مرد اور عورت خبریں اور احوال کرنے کے زیادہ شوقین ہوتے انہیں یا تو ’عبرت اخبار‘ یا ’بی بی سی‘ کا نام دیا جاتا تھا۔

BBC

Comments are closed.