حبیب شیخ
پہلے پہل سب نے میری تعریفوں کے پل باندھے ۔ مجھے زراعت کی ترقی میں ایک سنگ بنیاد قرار دیا گیا ۔ بعضوں نے یہ دعوے بھی کر دئے کہ میں اور میرے کچھ ساتھی اس خطہ ارض سے بھوک کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں گے۔ اور کپاس کی پیداوار اتنی بڑھ جائے گی کہ دنیا میں کوئی ننگا نہیں رہےگا۔
جب میں پچاس برس کی ہوئی تو کچھ لوگوں نے مجھ پر نکتہ چینی شروع کر دی اور مجھے ختم کرنے کی سازشیں کرنے لگ گئے۔ مزید دس سالوں کی تگ و دو کے بعد میرے موجد ملک میں میرے استعمال پر پابندی لگ گئی لیکن کئی دوسری جگہوں پر میری خوبیاں بیان کی جاتی رہیں اور مجھے پیار و محبت سے استعمال میں لایا گیا۔ ان لوگوں کو باور کرایا گیا کہ ان کی پسماندگی کی ایک وجہ مجھ جیسی ایجادات سے بہرہ مند ہونا نہیں ہے۔
براعظم جنوبی امریکہ اور بھارت کے کسا ن مجھے اپنی فصلوں پر چھڑکتے رہے۔ میں ان غریبوں کے جسم میں سرایت کر گئی اور وہ مہلک بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ ان کے بچّوں نے بھی اس دنیا میں عجیب و غریب بیماریوں کے ساتھ آنکھ کھولی اور بہت تو معذور ہی پیدا ہوئے۔ وہاں کے حکمران طبقے نے بھی کبھی اس کی پرواہ نہیں کی کہ ان معصوم لوگوں پر کیا بیت رہی ہے ۔
میرے ملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے میری برآمد پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ ملک کے اندر استعمال پر پابندی سے میری موجد کمپنی کو جو نقصان ہوا تھا وہ کہیں سے تو پورا کرنا تھا۔ جہاں تک مزدوروں اور کسانوں کے اور ان کے بچوں کے بیمار ہونے کا تعلق ہے شاید یہ انسان ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو کم تر درجے کے ۔ کئی سالوں تک مجھے اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی لیکن ایک ڈپلومیٹ نے ایک نجی محفل میں غریب ملکوں کے عوام کے لئے بے لوگ کی اصطلاح استعمال کر کے کتنی آسانی سے پوری بات سمجھا دی۔
میں ہوں اپنی موجد کمپنی کی چہیتی اینڈوسلفین
endosulfan۔