لیاقت علی
جنہیں لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا ای نئیں، لہور لہور اے ایدھے جہیا نئیں کوئی ہور، لہور زندہ دلاں دا شہر۔یہ اور اس طرح کے محاورے، آکھان تے گللاں باتاں لہور کے بارے میں زبان زد عام ہیں۔
بلاشبہ لاہورکا شمارموجودہ پاکستان کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اور اس کی شاندار اور قابل فخرسماجی،سیاسیی اورثقافتی تاریخ ہے۔ ہندوستان کی مکمل آزادی کی قرارداد لاہور میں راوی کنارے منظور ہوئی تھی اور قرار داد پاکستان بھی لاہورہی میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منظور کی گئی تھی۔
جس لاہورکو لوگ یاد کرتے اور اس کی تاریخ پر فخر کرتے ہیں وہ دہائیاں ہوئی دفن ہوچکا ہے۔ وہ لاہور جس کو دیکھے بنا کسی کا جنم نہیں ہوتا تھا وہ مختلف مذاہب، سیاسی روایتوں اور متنوع ثقافتوں کا شہر تھا۔ جہاں مساجد سے اگر اذانوں کی گونج بلند ہوتی تھی تو ان کے ساتھ ساتھ مندروں کی گھنٹیاں بھی سنائی دیتی تھیں اور گرودواروں سے ہونے والا شبد کریتن بھی کانوں میں رس گھولتا تھا۔
جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کی بڑی تعداد اس شہر کی باسی تھی۔ پارسی، مسیحی حتی کہ یہودی بھی اس شہرکے سماجی لینڈ سکیپ کا لازمی حصہ تھے۔ لاہور کے کالجوں، یوینورسٹیوں،بار ایسوسی ایشنوں میں ہر مذہب ، عقیدے اور سیاسی فکر کے افراد لاہور کو اپنا تاریخی ورثہ سمجھتے ہوئے اس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ وہی وہ لہور تھا جس کو دیکھے بغیر کوئی پیدا نہیں ہوسکتا تھا اور جو حقیقی معنوں میں زندہ دلوں کا شہر تھا۔
آج کا لاہور فرقہ پرستوں اور بنیاد پرستوں کا لاہور بن چکا ہے۔ یہاں سنیما ہاوسز ختم اور بارز پر پابندی ثقافتی سرگرمیوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔ یہاں شام غزل منعقد کرتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں کہ مولویوں کا کوئی گروہ ڈنڈا لے کر نہ چڑھ دوڑے۔ رقص، موسیقی اور فنون لطیفہ کو لاہور سے مدت ہوئی دیس نکالا مل چکا ہے۔
اب لاہور میں بسنت نہیں منائی جاتی کہ یہ مدت ہوئی پنجابیوں کی بجائے ہندوں کا تہوار قرار دیا جاچکا ہے۔ یہاں کوئی اب لوہڑی اور وساکھی نہیں مناتا کہ یہ سکھوں کے تہوارسمجھ لئے گئے ہیں۔ اب شالا مار باغ شالیمار باغ اور میلہ چراغاں عرس شاہ حسین کے نام سے مولویوں کے حوالے ہوچکا ہے۔
اب لاہورمیں مذہب اور عقیدے کے نام پرقتل ہوتے اور نویں دسویں محرم کے موقع پر سارا لاہور سیل کرنا پڑتا ہے۔ اب لاہور کی جو شکل وصورت بن چکی ہے اس کو دیکھے بغیر پیدا ہونے ہی میں عافیت ہے۔
♦