شیخ رشید سے کسی صحافی نے پوچھا کہ جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں تو انھوں نے برجستہ کہا کہ جن کا مسئلہ ہے وہ خود ہی حل کر لیں گے۔
جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں تھا، لیکن پاکستان کے آزاد میڈیا پر مسلم لیگ نواز کے لکھاریوں اور صحافیوں نے اس ایکسٹنشن کو اپنی انا کا مسئلہ بنا دیا تھا اور آج یہی لوگ اپنا تھوکا ہوا چاٹنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی عمومی طور پر اس ایشو پر اتنی پرجوش نہیں تھی اور ایکسٹنشن کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔
پیپلز پارٹی ایکسٹنشن کے ایشو پر اتنا جذباتی نہیں تھی جتنا کے مسلم لیگ نواز کے کارکن تھے کیونکہ وہ جنرل باجوہ کی پالیسیوں کے ڈائریکٹ وکٹم تھے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جنرل کیانی کی ایکسٹنشن کا مسئلہ اٹھا تھااور آصف زرداری نے جنرل کیانی کو ایکسٹیشن دے دی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کے جانے یا نہ جانے سے سیاسی حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا اور ہو سکتا ہے کہ نیا آرمی چیف، کیانی سے بھی دو ہاتھ آگے نہ ہو۔
نواز شریف اور ان ک پروردہ صحافیوں اور لکھاریوں کی فوج ظفر موج جس طرح جنرل مشرف سے انتقام لینا چاہتی تھی بعینہ ایسے ہی جذبات ان کے جنرل باجوہ کے متعلق تھے ۔
آصف زرداری نے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف سے انتقام لینے کی بجائے مل جل کر حکومت کرتے ہیں اور بہتر سے بہتر قانون سازی کرکے سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ کی مہم جوئیوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔
این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم پیپلز پارٹی حکومت کے کارنامے ہیں۔ اگر نواز شریف تعاون کرتے تو ضیا دور کی قانون سازی بطور خاص 62 اور63 کا خاتمہ ہو سکتا تھا اور آج شاید صورتحال کچھ تبدیل ہوتی مگر افسوس نواز شریف اس کی اہمیت کو سمجھ ہی نہ سکے اور میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے باوجود لال مسجد والوں کےآلہ کار بن گئے۔
پیپلز پارٹی نواز شریف کی طرح انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتی ۔حالانکہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ اور اس کے کارکنوں نے جنرل ضیا دور میں جتنی مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا ہے نوا زشریف یا مسلم لیگیوں کو اس کی ہوا تک نہیں لگی مگر پیپلزپارٹی نے جمہوریت کو ہی بہترین انتقام لینے پیغام ہی دیا ہے۔
محمد شعیب عادل
One Comment