مارشلائی جمہوریت کی پیداوار معذور پارلیمنٹ، مقتدرہ کے پروردہ سیاسی گماشتوں، مفادات کے طابع سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں سے اصول پرستی اور جمہوری بالادستی کے لئے ڈٹ جانے کی توقع کیسے کی جا سکتی جائے۔ مقتدر سیاسی پارٹی اور منتظر اقتدرا سیاسی پارٹیوں کے پارلیمانی اراکین آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لئے پارلیمانی پریڈ لائن میں سیلوٹ مارتے متحد کھڑے نظر آئے۔
آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے لئے سب بھاگتے بھاگتے انگوٹھا لگانے پہنچ گئے۔ شک کی گنجائش نہیں کہ اس خدمت کے صلہ میں اپوزیشن کو کچھ نہ کچھ تو ملا ہے اور مزید ملنے کے روشن امکانات ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں کو امید ہے کہ ان پر جیل کی سختیوں کا دور ختم ہو گا۔ وزیر اعظم لاکھ دھائی دیتے رہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، مگر نیب آرڈیننس نے احتساب کے کھوکھلے نعرے کے غبارے سےہوا خارج کر دی ہے۔
پارلیمنٹیرینز میں یہ جرات اور حوصلہ پیدا کیوں نہیں ہوتا کہ ملک میں بلامعاوضہ معیاری تعلیم اور طبی سہولتوں کی فراہمی بنیادی انسانی حق قرار دینے کا قانون بنایا جائے۔ روزگار کی فراہمی یقینی بنانے اور بے روزگاری گذارہ الاونس کے قانونی نفاذ میں انکو کوئی دلچسپی نہیں۔ بجلی، گیس اور اشیا خورونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کو روکنے میں پارلیمنٹ بے بس ہے۔ مزدوروں، سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی آمدن میں مہنگائی کے تناسب سے اٖضافہ کے لئے آواز اٹھانا انکی ترجیحات میں شامل نہیں۔
بہتر سالوں میں پارلیمنٹ اور سول ادارے کتنا عرصہ بالادست رہے۔ صرف چار سال 1973 سے 1977 تک۔ قیام پاکستان کے 25 سال بعد 1973 میں جمہوری آئین معرض وجود میں آیا۔ آئین نافذہونے کے چار سال بعد جولائی 1977 میں جنرل ضیا الحق نے آئین کا گلا گھونٹ کر مارشل لامسلط کر دیا۔ جیل اور ٹارچر سیلوں کی اذیتوں، کوڑوں کی دہشت، اور وزیر اعظم بھٹو کے عدالتی قتل میں آئین اور قانون کی حکمرانی غرق ہو گئی۔ کہاں کا آئین اور پارلیمنٹ، کدھر کی سول بالادستی، سب کچھ جنرل ضیا کی مارشل لا کے پاوں تلے مسل دیا گیا۔
عدلیہ ضیائی ماشل لا کے گھڑے کی مچھلی اور پریس پر مکمل پابندیاں نافذ۔ 1985 کی غیر جماعتی ضیائی نام نہاد پارلیمنٹ نے اسلام کے نام پر 1973 کے آئین کی جمہوری روح کا حلیہ بگاڑ دیا۔ کڑوڑوں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو ختم کرنے کا اختیار فرد واحد یعنی صدر کو تفویض کر کے منتخب پارلیمنٹ کو مقتدرہ کے گھر کی لونڈی بنا ڈالا۔
سنہ1988 کو جنرل ضیا اور اسکی غاصبانہ حاکمیت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی دو دو حکومیتں ضیائی ماشل لا زدہ آئین کے خنجر سے ذبح کی گیئں۔ دس سال 1989 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں صدارتی اختیارات کے ذریعے مقتدرہ کے شکنجے میں جکڑی رہیں۔ ان ادوار میں 1973 کے حقیقی جمہوری آئین کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور سول اداروں کی بالادستی نام کی کسی چیز کا وجود نہ تھا۔
دس سالہ ٹوٹی پھوٹی لاغر جمہوریت بھی مقتدرہ کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ 1999 میں جنرل مشرف نے شب خون مار کر نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور اقتدرا پر قبضہ کر لیا۔ آئین کاغذ کے چند ورق ٹھہرے جنہیں بوٹوں تلے روند ڈالا گیا۔ طاقت کے سامنے ہر سول ادارہ شکست خوردہ اور پسپائی اختیار کرنے پر مجبور۔ عدلیہ نے طاقت کے سامنے دو زانوں ھو کر جنرل مشرف کو آئینی میں یکطرفہ ترمیم کرنے کی سند جاری کر دی۔
جنرل مشرف کو اقتدار سے باہر نکالنے کو سیاسی قوتوں کی کامیابی کہا جا سکتا ہے۔ مگر اس کامیابی کی داستان بے نظیر بھٹو کے خون ناحق سے لکھی گئی۔ زرداری حکومت اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین کا حلیہ درست کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہی۔ آئینی ترمیم سے پارلیمنٹ توڑنے کا صدراتی اختیار ختم کر دیا گیا۔ جس کا مقصد پارلیمنٹ کو بالادست اور خودمختار ادارہ کے طور پر تسلیم کرانا تھا۔ زرداری حکومت کے بعد نواز شریف کی تیسری حکومت پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی کی کشمکش کا شکار ھو گئی۔ اس کے بعد مقتدرہ کی پسندیدہ پی ٹی آئی کو اقتدار کی مسند پر سجا دیا گیا ہے۔
اس وقت تحریری آئین میں پارلیمنٹ ایک بالادست اور خودمختار ادارہ کہلاتا ہے۔ مگر حقیقی دنیا اور عملی سیاست میں پارلیمنٹ کا کردار اس کے بر عکس ہے۔ پارلیمنٹ میں نام نہاد الیکٹیبل جاگیرداروں اور مفاد پرستوں کے ٹولے ہمیشہ سے مقتدرہ کے ہاتھوں کا کھلونا رہے ہیں۔ تینوں بڑی پارلیمانی سیاسی جماعتیں یعنی پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی ایسے عناصر سے بھری پڑی ہیں۔ عوام پر دھونس جمانے، حاکمیت کا رعب اور معاشی لوٹ کھسوٹ کے لئے ان کو اقتدار کے ایوانوں اور مقتدرہ سے راہ و رسم رکھنی پڑتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ انکی سب سے بڑی پناہ گاہ سمھجی جاتی ہے۔
سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کے فقدان کی وجہ سے سیاسی کارکنوں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس سے مفادپرستوں، جاگیرداروں اور مقتدرہ کے گماشتہ سیاستدانوں کی سیاست میں اجارہ دری رہی ہے۔ ان طبقوں کی اجارہ داری نے عوامی جمہوریت، پارلیمنٹ اور سول اداروں کی بالادستی اور جمہوری اقدار کی ترویج میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم پر پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے مقتدرہ کی ھدایت پر سر جھکا کے من و عن عملدرآمد کرا دیا۔ جس پر ان جماعتوں کے کارکنوں میں شدید بے چینی اور ناراضی پائی جاتی ہے۔ انکا سوشل میڈیا پر اپنی قیادتوں کے خلاف احتجاج، غم و غصہ اور سیاسی شعور قابل تعریف ہے۔ جمہوری بالا دستی، جمہوری اقدار، اور عوام کے معاشی حقوق کی جدوجہد ایک مسلسل عمل ہے جسے جمہوریت پسند، ترقی پسند سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور صحافیوں کو ہر سطح پر جاری رکھنا چاہئے۔
♦
One Comment