فیض احمد فیض کا بھارتی شہریت ترمیمی قانون سے کیا تعلق ہے؟

بھارت میں شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہرین کو کچلنے کے لیے مرکز کی مودی اور اترپردیش کی یوگی حکومت کی طرف سے جاری سخت اقدامات کی زد میں پاکستان کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض بھی آگئے ہیں۔

بھارتی شہر کانپور کے مشہور تعلیمی ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) نے ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ فیض کی مشہور نظم ہم دیکھیں گے‘ ہندو مخالف ہے یا نہیں؟  شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آئی آئی ٹی میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران طلبہ نے یہ نظم پڑھی تھی۔

پندرہ دسمبر کو دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولیس کی مبینہ زیادتی اور بربریت کے خلاف بھارت کی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ نے بھی ایک پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ سترہ دسمبر کو منعقدہ اس مظاہرے میں فیض احمد فیض کی مشہور نظم ہم دیکھیں گے‘ بھی پڑھی گئی تھی۔

آئی آئی ٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر منیندر اگروال نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ادارے کے ایک جزوقتی ٹیچر ڈاکٹر وشی منت شرما اور سولہ دیگر افراد نے آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر کو ایک تحریری شکایت درج کرائی، جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگوں نے فیض کی جو نظم پڑھی ہے وہ ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر منیندر اگروال کے مطابق، ”اس معاملے کی انکوائری کے لیے ان کی صدارت میں ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کچھ طلبہ سے پوچھ گچھ کی گئی ہے اور چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی لوٹنے پر دیگر طلبہ سے بھی تفتیش کی جائے گی۔ کمیٹی کو پندرہ دن کے اندر اپنی رپورٹ دینے کے لیے کہا گیا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ قصور وار پائے جانے والے طلبہ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

انکوائری کمیٹی کے سربراہ منیندر اگروال کے مطابق شکایت کنندگان کو سب سے زیادہ اعتراض درج ذیل اشعار پر تھا:۔

جب ارضِ خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل صفا مردود حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مقیم معروف دانشور اور مورخ ایس عرفان حبیب نے آئی آئی ٹی کانپور کے اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں کہا، ”یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ آئی آئی ٹی جیسا معیاری تعلیمی ادارہ فیض احمد فیض کی انقلابی نظم ہم دیکھیں گے‘ کے مقصد، معنی اور پس منظر کو سمجھ نہیں سکا اور اس سے بھی زیادہ بدترین بات یہ ہے کہ ایک کمیٹی یہ پتہ لگا رہی ہے کہ یہ ہندو مخالف ہے یا نہیں۔

ماہر سماجیات، مصنف اور سابق رکن پارلیمان پرتیش نندی نے بھی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے، ”آپ کو اس نظم میں کون سی قابل اعتراض بات دکھائی دی؟ فیض اتنے ہی قد آور ادیب ہیں جتنا کہ بنکم چند چٹرجی اور میں یہ بات ایک بنگالی ہونے کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔ 

ایک دوسرے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا، ”فیض کا فرقہ پرستی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ حریت پسندوں کے شاعر تھے، وہ دبے کچلے لوگوں کے شاعر تھے، وہ محبت کے شاعر تھے، وہ انسانیت کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں ہندو مخالف نکتہ نظر تلاش کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔

بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری مظاہروں میں سب سے زیادہ دو شاعروں فیض احمد فیض اور حبیب جالب کا کلام چھایا ہوا ہے۔ طلبہ اور نوجوان فیض کی نظم گا کر ارباب اقتدار کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یوم حساب‘  ضرور آتا ہے اور ہر حکمراں کے دن ایک نہ ایک دن ختم ہو جاتے ہیں۔

فیض نے یہ نظم 1979میں پاکستانی فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں کہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ تب پاکستان کی فوجی حکومت نے اس نظم پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی تھی۔ اس نظم کی تخلیق کے تقریبا چالیس برس بعد اب بھارت کے حکمران بھی اس ادب پارے سے خائف نظر آ رہے ہیں۔

DW

Comments are closed.