بھارتی کشمير کے چند حصوں ميں 25 جنوری سے انٹرنيٹ کی سروس بحال ہو رہی ہے ليکن صارفين کو حکومت کی منظور کردہ ويب سائٹس تک ہی رسائی حاصل ہو گی جبکہ سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر پابندی برقرار رہے گی۔
بھارتی کشمير کی خصوصی انتظامی حيثيت کے خاتمے کے ساتھ ہی گزشتہ برس اگست ميں نئی دہلی حکومت نے اس خطے ميں انٹرنيٹ کی ترسيل بھی معطل کر دی گئی تھی۔ اب تقريباً پانچ ماہ بعد انٹرنيٹ کی سروس جزوی طور پر بحال کی جا رہی ہے۔
اس بارے ميں جموں اور کشمير کے محکمہ داخلہ کے جاری کردہ بيان ميں بتايا گيا ہے کہ صارفين کو حکومت کی منظور کردہ 301 ويب سائٹس تک رسائی حاصل ہو گی۔ علاوہ ازيں اسمارٹ فونز پر ڈيٹا کی سروس بھی بحال کی جا رہی ہے، يعنی مقامی لوگ اپنے فونز سے بھی آن لائن جا سکيں گے۔ سوشل ميڈيا ويب سائٹس پر پابندی اب بھی برقرار ہے۔
بھارتی عدالت عظمٰی نے اسی ماہ نئی دہلی حکومت کے انٹرنيٹ کی بندش سے متعلق اقدام کو ‘اختیارات کا ضرورت سے زيادہ استعمال‘ قرار ديا تھا۔ سپريم کورٹ نے يہ بھی کہا تھا کہ انٹرنيٹ تک آزاد رسائی بھی آزادی اظہار رائے کی طرح بنيادی حقوق ميں سے ايک ہے اور اسے غير معينہ مدت تک کے ليے معطل نہيں رکھا جا سکتا۔ بھارتی حکومت کا موقف رہا ہے کہ يہ قدم سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے اٹھايا گيا۔
جموں اور کشمير کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جمعے کی شب جاری کردہ بيان ميں مطلع کيا گيا ہے کہ انٹرنيٹ کی رفتار سست رکھی جائے گی۔ ذاتی سطح پر رابطہ کاری کی سوشل ميڈيا ويب سائٹس فی الحال بند رہيں گی، البتہ اس فيصلے پر نظر ثانی اکتيس جنوی کو متوقع ہے۔
انٹرنيٹ کی بحالی کے بعد بھارت کے زير انتظام کشمیر کے بيشتر حصوں ميں صارفين مختلف بينکوں، تعليمی اداروں، خبريں فراہم کرنے والی سائٹس، نيٹ فلکس اور خريداری کے ليے ايمازون جيسی چند منتخب ويب سائٹس تک رسائی حاصل کر سکيں گے۔
يہ امر بھی اہم ہے کہ بھارتی حکومت نے جنوری کے اوائل ميں بھی کشمير کے چند حصوں ميں انٹرنيٹ بحال کرنے کا دعوی کیا تھا، تاہم ان علاقوں ميں رہنے والے انٹرنيٹ نہ ہونے کی شکايت کرتے رہے ہيں۔
ڈيجيٹل رائٹس گروپ ‘ايکسس ناؤو‘ کے مطابق بھارت کے زير انتظام کشمير کے خطے ميں انٹرنيٹ کی سروس ڈيڑھ سو ايام سے زائد عرصے کے ليے معطل رہی۔ يہ کسی بھی جمہوريت ميں سب سے طويل مدت کے ليے کی گئی بندش ہے۔
دوسری طرف بھارتی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فونز پر پابندی اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ وادی میں موجود دہشت گردوں اور ان کے حامیوں اور ان کے سرپرستوں کے درمیان کمیونیکشن کو روکا جائے۔
DW/Web Desk