لیاقت علی
جواہرلعل یونیورسٹی دہلی 1969میں بھارتی پارلیمنٹ کے ایکٹ کی بدولت قائم ہوئی تھی۔ اس یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی 1964 میں وفات کے بعد کیا گیا تھا۔
یہ یونیورسٹی جواہرلعل نہرو کے سیاسی نظریات ،سیکولرازم،سیاسی،سماجی اورثقافتی تنوع کے پس منظرمیں قائم کی گئی تھی۔ اس یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلرجی پارتھا سارتھی اورپہلے ریکٹر پروفیسر مونس رضا تھے۔
جے۔ این۔ یو اپنے قیام ہی سے جمہوری نظریات سماجی انصاف، سیکولر ازم اورفکری وعلمی آزادی سے جڑے نظریات کا مرکزرہی ہے۔ اس یونیورسٹی کےطلبا ہوں یا ایکڈیمک سٹاف دونوں کی اکثریت نے بھارت کو حقیقی معنوں میں ایک سیکولر جمہوری ملک بنانے کی جدوجہد میں رہنما کردارادا کیا ہے۔
اس یونیورسٹی کے پروفیسرزاورطلبا نے بھارت میں بنیاد پرستی،مذہبی تنگ نظری اورہندو قوم پرستی کے نظریات کے خلاف ہرمحاذ پرثابت قدمی سے جدوجہد کی ہے۔جے۔این۔ یو کی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں اوران انتخابات میں بائیں بازو کے نظریات سے متاثر یا تنظیموں سے وابستہ طلبا ہی جیتتے آئے ہیں۔
جےاین یو اپنی روشن خیالی اور سیکولرشناخت کی بنا پر ہمیشہ سے ہندتوا کے حامیوں کی تنقید اورمعاندانہ ردعمل کا ہد ف رہی ہے۔ 1975 میں جب اندرا گاندھی نے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کی تو جےاین یو کے طلبا اور اساتذہ نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی اورجمہوریت کے حق میں اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں اہم رول ادا کیا تھا۔ جے۔این۔یوکے بہت سے طلبا اور پروفیسرز کو ایمرجنسی مخالف تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں اندرا سرکار نے گرفتار کیا تھا اور انھیں مہینوں تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں تھیں۔
جےاین یو ایک دفعہ پھر اپنی ترقی پسند اور روشن خیالی کی روایت کے عین مطابق مودی سرکار کے متنازعہ قانون شہریت کے خلاف جدوجہد اورمزاحمت کا اہم مرکز بنی ہوئی ہے۔ جے ۔این۔یو کےطلبا اور پروفیسرز بھارت کی سیکولر شناخت کے تحفظ اور مذہبی اورسیاسی و سماجی تنوع کے دفاع میں سڑکوں پرہیں۔ جے۔این۔یو کے طلبا کی متنازعہ قانون شہریت مخالف اس جووجہد کا ذکر پاکستانی میڈیا میں ہرروز ہوتا ہے اور ملفوف انداز میں اس جدوجہد کی تحسین کی جاتی ہے۔
جے۔این۔یو کی روشن خیال اور ترقی پسند روایت کو پیش نظر رکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہم جے۔این۔ یو طرح کی کوئی یونیورسٹی کیوں نہیں قائم کرسکے۔ ہماری یونیورسٹیاں رجعت پسندی کا گڑھ اورعلم دشمنی اورفکری آزادی کی مخالفت کے مراکز بن چکی ہیں۔ طلبا ہوں یا اساتذہ دونوں تخلیقی فکرو نظر سے عاری اور جدیدیت اور روشن خیالی کی مخالفت میں پیش پیش رہتے ہیں۔
پاکستان میں ریاست اور مذہب کے اختلاط نے تعلیمی اور فکری آزادی کا گلہ گھونٹ رکھا ہے اور تخلیقی سوچ اور جدید نظریات ہمارے تعلیمی اداروں میں شجر ممنوعہ درجہ پاچکے ہیں۔ جب تک ہماری ریاست مذہبی بنیادوں پر استوار رہے گی ہم جےاین یو جیسی کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کرسکیں گی اور ہماری یونیورسٹیاں بڑی بڑی عمارتوں میں محض دینی مدارس کی جدید شکل میں رٹو طوطےپیدا کرتی رہیں گی جن کا عہد جدید کے فکری اور علمی تقاضوں سے کوئی علاقہ نہیں ہوگا۔
نوٹ: چونکہ یہ تحریر سوشل میڈیا پر آئی تو ایک صاحب نے اپنے کمنسٹس میں لکھا
بھارت ایک سیکولر ڈیموکریٹک یونین ہے جسے کبھی کبھی مودی یا اس کے ہم خیال لوگ ایک ملک سمجھنے یا بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو وہاں کی میچور سول سوسائٹی ناکام بنا دیتی ہے۔ انڈیا کی بقا بحیثیت ایک یونین اس کے تنوع میں ہے۔ جبکہ پاکستان نہ ہی کوئی یونین ہے (جو کہ بن سکتی تھی) اور نہ ہی کوئی ملک ہے (جو کہ بن ہی نہیں سکتا تھا)۔
پاکستان ایک ملٹری سروسز کلب ہے جسے رائل برٹش انڈین آرمی کے افسران کیلئے بنایا گیا ہے اس لئے یہاں سیکولر جمہوری اقدار کو فروغ دینے والے کسی تعلیمی ادارے کی نہ کبھی کوئی بنیاد رکھی گئی اور نہ ہی اب ایسا ممکن ہے۔جو لوگ اسے ایک یونین یا ملک بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں وہ خون میں نہلائے جاتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں جواہر لال نہرو یونیورسٹی جیسی ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے، ہم تو بس مطالعہ پاکستان نما ایک ایسی مخلوق پیدا کئے جارہے ہیں جو اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے عادی ہی نہیں ہیں اور ان کی ناک پرکٹڑ ملائیت سوار ہے، ایسے ملک کو تباہ کرنے کیلئے کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں، ایسے بند دماغ توخوداپنی موت کا سامان کئے بیٹھے ہیں۔
♣