نرگسیت کی ماری حساس قوم   

شہزاد عرفان

حال ہی میں ملتان بار ایسوسی ایشن کے وکلاء نے متفقہ طور پر ’’ تحفظ ناموس رسالت ‘‘ کے نام سے ایک قرار داد منظور کی۔  اس قرار داد کے مطابق احمدیوں سمیت کوئی بھی غیر مسلم وکیل ملتان  بار  کےانتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا ۔ چند روز بعداسلام آباد بار ایسوسی ایشن (آئی بی اے) نے ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں بار کے ممبرز سے یہ درخواست کی گئی ہے   کہ  وہ اپنے مسلمان ہونے کا سرٹیفیکٹ  بصورت حلف نامہ 31 جنوری تک  جمع کرادیں بصورت دیگر ان کی ممبر شپ معطل  کردی جائے گی ، یعنی بیان حلفی میں انھیں ختم نبوت پر ایمان لانے کا دستاویزی ثبوت مہیا کرنے کا کہا گیا ہے ۔

آئین پاکستان کے مطابق اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہے  جس میں تقریبا 95۔98٪ پاکستانی مسلمان ہیں۔  انڈونیشیا کے بعد پاکستان دنیا میں مسلم آبادی والا دوسرے نمبر پر آتا ہے جس میں زیادہ تر سنی العقیده  مسلمان جو تقریباً  75۔95٪  تک ہیں ۔جب کہ دوسری طرف پاکستان کو دنیا میں ایک کٹر اسلامی انتہاپسند ملک کی حیثیت  سے جانا جاتا ہے پاکستان کے تمام شہریوں کو مذہبی دہشت گرد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آج پاکستان کا پاسپورٹ دنیا میں چوتھے نمبر پر کم تر گردانا جاتا ہے  ۔

ایسے میں یہ کہنا کہ آٹے میں نمک برابر  خوف اور ڈر میں زندہ رہنے والی دو فیصداقلیتوں سے اٹھانوے فیصد اکثریت جوتحفظ ناموس  رسالت پر یقین اور ایمان رکھتے ہوں کوخطرہ  درپیش ہے  کسی  اور سازش کا پتہ دیتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق  خلاف اور مذہبی انتہاپسندی کی طرف عوام کو دھکیلا  جارہا ہے  تاکہ ایک ایسا معاشره مستقبل میں تشکیل پائے جہاں ایک مخصوص بیانیہ کے پیروکاروں کا راج ہو ۔

 تو ہین ناموس رسالت کو اپنے سیاسی ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر نا ہی سب سے بڑی تو ہین ناموس رسالت ہے۔ آج ایک روشن خیال عام مسلمان بھی یہ مکمل علم اور ادراک رکھتا ہے کہ ختم نبوت پر ایمان ہی ایک مسلمان  کے عقیدے کی پہچان ہے ۔ کسی مدرسے کے مولوی یا امام مسجد یا ایک مخصوص مذہبی سیاسی کارکن کے علاوہ  کبھی کسی عام شخص نے کسی کو توھین مذھب یا توہین رسالت کرتے نہیں دیکھا ہوگا نہ سنا ہوگا ۔

پاکستان میں گلی محلوں کالونیوں بستیوں میں تمام مذاہب عقائد اور فرقوں کے لوگ ساتھ ساتھ صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں اور ہمیشہ ایک دوسرے کے عقیدوں مذاہب اور مذہبی شخصیات کا احترام کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہےکہ  پاکستان میں  ایک مخصوص مذہبی مائنڈسٹ کو اندیکھی طاقتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں ۔ کیونکہ بیروزگاری ،مہنگائی ،حکومتی عدم استحکام نےعوام میں روز بروز بڑھتی ہوئی  بے چینی   میں اضافہ کیا ہے جو اب وقت کے ساتھ ساتھ انقلابی تحریکی سوچ میں تبدیل ہونے کو ہے ۔

یہ وہی عوام ہے جو تبدیلی کے نعرے پر گھروں سے باہر نکلے تھے مگر بدقسمتی کہ لیڈر فراڈیا نکلا وہ  فوجی آمروں کی طاقت کا آلا کار اور کٹھ پتلی نکلا جس کا عوام کو  شدیددکھ  اور رنج ہے کہ ان کی مجبوری، یسماندگی، مسائل کے حل ،تبدیلی کے کھوکھلے نعرے کے نام پر انہیں اپنے اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔

احساس جرم تو خیر کیا ہوگا البتہ یہ عوام کے غیض و غضب کے ڈر سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں عوام اپنے انتقام اور غصہ کا اظہارلیے سڑکوں پر نہ آئیں  فوراً ان کی توجہ کسی اور ایشو پر مرکوز کرادو ۔۔۔ نان ایشوز با لخصوص حساس مذہبی جذبات جو اتفاق سے پوری دنیا میں سب سے زیاده نرگسیت کے مارے  پاکستانی قوم میں پائے جاتے ہیں کو ہوا دی جائے عوام کو پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر دوڑایا جائے ۔۔۔عوام میں مہنگائی اور غربت کا جوعفریت جاگ کر اب حاکموں  اور ان کو چلانے والے باوردی آمروں پر چڑھ دوڑنے کو ہے  کا رخ پاکستان کے پسماندہ محکوم طبقہ یعنی مذہبی اقلیتوں  کی طرف موڑ دیا جائے جو پہلے سے ہی معاشی اخلاقی اور مذہبی عدم مساوات کا شکار چلے آرہے ہیں ۔۔یوں ایک تیر سے دو شکار ۔۔۔مستقبل میں عوام کو محکوم بنا کر ان پر آسانی سے حکمرانی کے بھونڈے طریقہ واردات  کو آزمایا جارہا ہے ۔۔۔  

پاکستان میں فوجی آمریت کی تاریخ  کا بنیادی خیال ہمیشہ  مذہبی انتہاپسندی کے فروغ سے ہی جنم لیتا رہا ہے ۔۔۔ ا گر اب بھی عوام نے اس گمراه کن سازش سے پردہ فاش  کرکے اسے رد نہ کیا تو یہ ایک بار پھر ماضی کی طرح فوجی آمروں کی عوام پر فتح ثابت ہوگی ۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر مذہبی انتہاپسندی عوام کا محبوب مشغلہ بنے گی مذہب کے نام پر دکانیں کھلیں گی پہلے سڑکوں محلوں میں اسلام کے نام پر انسان کا خون بہا کرتا تھا تو اب عدالتوں میں اس انسانی جرم کا ارتکاب وکلا اور جج صاحبان کریں گے بلکہ وکلا اپنی فیس کے عوض یہ دینی فریضہ انجام دیں گے ۔

ادھر بارڈر  پر  دن رات وطن کے محافظ کہلانے والے محب وطن باوردی جوان جو پہلے ہی سویلین علاقوں میں دین اور اسلام کی حفاظت کرنے پر مامور ہیں انھیں سرحدوں پر بیٹھے دشمن سے زیادہ پاکستانی عوام سے خطرہ ہے جبکہ پاکستانی عوام منہ میں مذہب کے لولی پاپ کا مزا اٹھاتے  جذبہ شہادت سے سرشار سرحدوں پر دشمن کی فوج کے آگے بم باندھ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر نے کو تیار ہونگے  ۔

کوئی بھی معاشر ہ  یہ تصور بھی کیسے کرسکتا ہے کہ اسکا سب سے اعلیٰ اور بہترین طبقہ جو قانون سازی سے لے کر قانون کے نفاذ اورعمل پر یقین رکھتا ہو جس سے عوام کو انصاف کی توقع ہو جو کسی بھی سیاسی جمہوری انسانی حقوق کا ہراول دستہ ہو وہ آمریت کی بحالی اور انسانی حقوق کی پامالی میں پیش پیش ہو ؟   اگر یہ معیار ہے تو پھر اس ملک کو جس کا یہ معاشره ہے اس تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا جو تباہی شام عراق اور افغانستان میں آئی جہاں مذہب اور فرقے کے نام پر ہونے والی مقامی خانہ جنگی عالمی طاقتوں کے خونی کھیل کا میدان بنی ۔۔۔

ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پہلے  انتہا پسند ملا تیار کیے گئے جنہوں نے عوام کے مذہبی جذبات ابھارے ۔۔ ایک کو حق دو سرے کو باطل بنا کر عوام میں پیش کیا ۔۔۔ اسلام کو نفرت اور قتل و غارت گری کا  ہتھیار بنا کر آمریت اور اقتدار قائم کرنے کا ذریعہ بنایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ نہ ملک رہا نہ عوام ماسوائے کھنڈرات اور اس کے میدانوں میں کھیلتے خون آلود وحشی درندے جو خود کو اسلام کی بقا کا پاسبان کهلاتے تھے جو ا س خونی کھیل کے میدان میں ہاتھوں میں تلوار اور  نیزوں پر پھول جیسے بچو ں کے خون میں لت پت اذیت بھرے چہروں والے ٹنگے سروں کے مینار ۔۔۔ تن سے جدا خواتین کے سروں سے فٹ بال کا میچ کھیلنا جہاں تفریح اور باعث لذت تھا وہیں عین اسلامی عبادت  ٹھہرا ۔

کیا پاکستان جو بظاہر ایک جمہوری آئین رکھتا ہو باوجود کہ اس میں ترامیم کے ذریعے آمریت اور مذھبی جانبداری  ٹھونسی گئی ہو ۔۔۔جوکئی مذاہب عقائد اقوام زبانیں ثقافتوں کا ملک ہو کو ہزاروں سال پہلے کے بدوی وحشی قبائلی نظام کی نذر  کیسےکرسکتے ہیں ؟ جس  قبائلی نظام کے خاتمہ کے لیے اسلام کےفلسفہ  کاجنم ہو ،جس کا مفہوم اور فلسفہ امن ہو جس مدینہ کی ریاست میں سب سے پہلے مذھبی  اقلیتوں کو تحفظ دیا گیا ہو  جہاں اسلام آ بادی اور ملتانی وکلا سڑکوں پر   اقلیتوں کے حقوق کے خلاف نعرہ بازی نہ کرتے ہوں جہاں قاضی کسی سپہ سالار کے حکم کی تعمیل بجائے آئین اور قانون کو مدنظر رکھ کر فیصلے سنائے ۔

افسوس تو یہ کہ نرگسیت کے مارے عوام کو بار بار یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ آپ مذہب کے معاملے میں بہت حساس ہیں کہہ کر مزید حساس کردیا گیا ہے کیوں کہ ان کے پیچھے وہی حساس ادارے ہیں جو خود بھی حساس ہیں  اورعوام کو بھی اس حساسیت کی نفسیاتی بیماری ہیں مبتلا کرتے چلے آرہے ہیں کیوں کہ احساس کی کمی ہے کہ یہ ملک جذبات سے نہیں عقل و فہم  سے چلے گا سائنسی انداز اور طرز فکر سے جہوریت سے چل سکتا ہے ۔ پاکستان کو  مذہبی یا تھیو کریسی کے فرسودہ نظام سے نہیں چلایا جا سکتا ۔

مقدس ادارے نشان یا عمارتیں نہیں ہوا کرتیں بلکہ مقدس عوام اور انکے افکار خیالات جذبات اور اجتماعی مقامی فلسفہ ہوا کرتا ہے ۔ دنیا بھر میں انسانی ترقی کے  مروجہ سائنسی اصول ہی ترقی کا واحد راستہ ہے  ۔ 

3 Comments