آج کل توجیحات کا ایک مینابازار سا لگا ہے۔ جو توجیح تھوک کے حساب سے بیچی جارہی ہے وہ ہے کہ “دیکھیں جی سیاستدان کا اولین ہدف حصول اقتدار ہوتا ہے، اس کے لئے اسے کئی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔” اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ قول دراصل ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائدین کا ہے تو آپ درست ہیں۔ اب آپ اگر لاکھوں کروڑوں کی طرح ورطہ حیرت میں ہیں کہ اچانک یہ “با اصول” جماعت ایک سو اسی کے زاوئیے پر کیسے موجود ہے، تو آئیے آپ کے اس مخمصے کو تھوڑا سہل کیے دیتے ہیں۔
یہ جنوری 2014 کی بات ہے۔ راقم الحروف وطن عزیز کے ایک موقر انگریزی اخبار میں ہفتہ وار قلم گھسیٹ کر دل کی باتیں زبان پر لانے کی گستاخی کیا کرتا تھا۔ ملک میں تیسری بار منتخب ہوئے بھاری اکثریت کے حامل، وزیر اعظم کو یہ درخواست کی تھی کہ حضور، جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اب مشرف نامی شخص سے تاریخ نے آپ کا پیچھا چھڑا دیا، خدارا گڑے مردے نہ اکھاڑئیے اور آگے بڑھیے۔
مگر صاحب شائد اس عاجز سمیت اور جتنے افراد نے جناب کے یہ گوش گزار کیا، جناب نے اسے کمال بے اعتناعی سے رد کرتے، اس آمر کو اس کے کیے کی سزا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ کیونکہ موصوف تاریخ کے لئیے اس اصول پر کاربند تھے کہ آئندہ کوئی طالع آزما اس “سنگین غداری” کی جسارت نہ کرے۔
کتابی اور اصولی بنیادوں پر تو اس بات میں وزن ہے۔ مگر کیا ملک کے معروضی حالات اور زمینی حقائق میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ یعنی اس حقیقت کو طفل مکتب بھی محسوس کرتا ہے کہ طاقت کا ایک عدم توازن ہے، اس عدم توازن کی صورت میں آپ کوئی بھی اقدام کریں گے جو اس حصار کو چیلنج کرے گا، تو اس کے فطری ردعمل کے لئیے خود کو تیار رکھئیے۔
جناب کے مصاحبین اور رفیقین نے انہیں ڈٹ جانے کا مشورہ دیا، یہ حساب لگائے بنا کہ ردعمل کیا ہوسکتا ہے اور ہر ردعمل کی جوابی حکمت عملی کیا ممکن ہوسکتی ہے۔یوں حالیہ تاریخ میں دارلحکومت میں 126 دن کاطویل ترین دھرنا ہوا۔جناب کو سگنل اور اشارے کنائے دئیے گئے، کہ جناب خبردار ہو جائیں۔ مگر جناب ٹس سے مس نہ ہوئے۔
آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کی شہادت کی بدولت اس سے نکلے تو پانامہ دستاویزات منکشف ہوئیں۔اس پر بھی جناب نے کوئی مصالحانہ موقف نہ دکھایا اور ڈٹے رہے۔ نتیجہ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
جناب کے علم میں تھا کہ بھائی “اوپر والے” میرے اس اقدام سے سخت ناخوش ہیں اور اب انہوں نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ وہ مجھے ہر حال میں چلتا کریں گے۔ کیونکہ میں نے ان کی قائم اجارہ داری اور غلط اقدامات کو چیلنج کر دیا ہے۔یاد رہےکہ جناب کی برطرفی سے قبل “ڈان لیکس” کی وساطت سے ملک دشمن ہونے کا ٹھپہ بھی جناب پر لگ چکا تھا۔
آگے بڑھنے سے قبل تھوڑی وضاحت اس سابق آمر کو کٹہرے میں گھسیٹنا کیوں غلط تھا، اس پر بھی ہو ہی جائے۔ حضور والا، مشرف سے قبل تین آمرین یہی اقدام کر چکے تھے۔ان پر صرف نظر ہوئی اور تاریخ نے ان کو کیا مقام عطا کیا، سب جانتے ہیں۔عوام میں کوئی نہ ان کی تاریخ پیدائش پر شادیانے بجاتا ہے اور ان کی مدح سرائی میں الفاظ کو کسی سخی کی مانند لٹاتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کی تاریخ وفات پر برسی منا کر ان کے لئیے آنسو بہاتا ہے۔ یہ ہے ان کی تاریخی وقعت۔ اس کے برعکس ساسی لیڈران کا معاملہ بھی سب پر عیاں ہے، کیسے ان کے چاہنے والے انہیں ہر برس خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
مشرف نے اکتوبر 1999 کو اپنے غیر قانونی اقدام کو پارلیمان سے منظور کروا کے ایک قانونی حاصل کرلی تھی۔ غلط یا صحیح پارلیمان چاہے اس کے خوف کے زیر اثر تھی، مگر شریک گناہ تھی۔ پھر نومبر 2007 کے اقدام پر وہی پارلیمان، چونکہ اپنے گزشتہ عمل کو کالعدم قرار نہیں دیتی اور نہ ہی نئے عمل کی توثیق کرتی ہے تو یہ بھی تو ایک طرح سے اس پارلیمان کا اعتراف جرم ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوئی مشرف کے کسی بھی اقدام خواہ وہ اکتوبر 1999 ہو یا نومبر 2007 کو جائز نہیں کہہ رہا۔ بات یہاں یہ کی جارہی ہے کہ مشرف صاحب کو تنبیہہ کردی جاتی کہ ایسا مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے، اتنا ہی کافی تھا۔
مزید یہ کہ جن کی یادداشت کمزور نہیں، وہ اس بات کی تصدیق کریں گے، کہ ایک مرتبہ محترم مشرف اپنی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد جب وطن عزیز لوٹے تو ان کو ان کی زندگی کا سب سے بڑا دھچکہ لگا۔ موصوف اس امید پر واپس وطن تشریف لائے تھے کہ فیس بک کی وال اور ٹوئیٹر کی ٹائم لائن سے ان کے مداحین جوق در جوق کراچی ائیرپورٹ پر ان کے استقبال کے لئے موجود ہوں گے، پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ یہ سبکی ہی جناب کی سیاسی حیثیت اور عوامی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ یہ بے توقیری کہ کل تک جب تلک وہ وردی میں ملبوس حکم چلاتے تھے، ایک فوج ظفر موج ان کی جی حضوری کرتی تھی۔ جب وہ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے وطن واپس آئے تو ان کو پوچھنے والے گنتی کے افراد تھے۔
ہماری تاریخ نے ہمیں یہ بھی دکھایا کہ جناب نواز شریف عدالت عالیہ کے توسط سے برطرف کیے گئے۔ بڑے غیض وغضب کے ساتھ برطرفی کا تمغہ سجائے، سڑکوں پر عوام الناس کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھائے چل پڑے۔ جناب کے لبوں پر “ووٹ کو عزت دو” اور “‘مجھے کیوں نکالا” کا ورد تھا۔ عوام نے پرزور حمایت کی۔ ہمیں یہ یقین دلایا گیا کہ حالات کی بھٹی نے آمر کی گود سے اٹھے ایک سیاسی لیڈر کو “نظریاتی” بنا دیا ہے۔ لوگوں نے اپنا دل و جان ہتھیلی پر رکھ کر لبیک کہا۔ جناب کی دختر نیک اختر نے بھی اس تحریک میں بھرپور ساتھ دیا اور یوں عوام نے بھی کہا چلے چلو کہ منزل قریب ہے۔ کوئی تو ہے جو سول بالادستی کی جنگ، کے لئے ڈٹ گیا ہے۔ ناقدین نے اسے سیاسی چال کہا اور طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی، مگر جناب پتھرکی لکیر پر اپنے نظریہ کو رقم کرتے چٹان بنے رہے۔
اب لمحے بھر کو سوچئیے کہ جنہوں نے آپ کو قصر وزیر اعظم سے بے آبرو کر کے نکالا اور جن پر طاقت اور اختیار مملکت خداداد کا دارومدار ہے، کیا وہ آپ کو انتخاب میں کامیاب ہونے دیتے؟ آپ لندن سے تشریف لے آتے ہیں بمعہ اپنی دختر کے اور “نظریاتی” بن کر گرفتاری دیتے ہیں، اس امید پر کہ عوام ان کی ہر چال کو ناکام بنا دیں گے۔
حضور والا عوام کی اس ووٹ کی پرچی کی بے توقیری جس طرح کی گئی، کیسے نتائج بدلے گئے، کیسے آرٹی ایس سسٹم فیل کیا گیا، اگر یہ آپ کے وہم و گمان میں نہیں تھا تو غلطی جناب کی ہے، آپ کے رقیب کی نہیں۔ ایک کورٹ سے دوسرے کورٹ، پیشیاں اور پشیمانیاں لئیے در بدر رہے۔ خود بھی اور صاحب زادی کو بھی اس رسوائی بھری اذیت سے گزارا۔
اسیری میں صحت ان تمام تکالیف کا بار نہ اٹھا سکی اور بالآخر صاحب فراش ہوئے۔ وطن عزیز سے عدالتی حکم پر بوجہ علاج لندن روانگی کی اجازت پر تشریف لے گئے۔اسی اثنا میں سپہ سالار اعلی کی مدت ملازمت پر قانونی سوال اٹھا اور عدالت عالیہ نے پارلیمان کی گود میں اس سوال کے تعین کو لے جا کر رکھ دیا۔
یہاں سب پر امید تھے کہ “خلائی مخلوق” کو جناب چاروں شانے چت فرما کر تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہوجائیں گے۔مگر وہ کیا ہے کہ کسی پرانے فلمی نغمے کے مصداق ” سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔” جو یاران محفل اور ہمسفر کبھی سینہ چوڑا کر کے سکرین پر یہ کہا کرتے تھے“میاں نواز شریف ایک نظرئیے کا نام ہے۔” آج بے چارے ہکلاتے کچھ خفت مٹاتے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ “میاں نواز شریف کا آرمی چیف کی مدت ملازمت کی قانون سازی میں حمایت کا فیصلہ تاریخ ثابت کرے گی کہ ایک درست قدم تھا۔”
توجیحات اور صفائیوں کا بازار گرم ہے کہ ایسا کرنا کیوں ضروری اور لازم تھا۔ ووٹر اور سپورٹر پردے کے پیچھے کی مجبوریوں سے ناواقف ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ بعض اوقات نظرئیے سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے، حالات کے تقاضوں کی وجہ سے۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ اگر آپ نے ان تمام عوامل کو اپنے سامنے رکھے بنا “نظریاتی” بننے کا اندھا تیر چلایا تھا، تومعزرت کے ساتھ بے چارگی کی داستان خود تک محدود رکھئیے۔ وہ سیاست دان ہی کیا جو حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے درست فیصلہ درست وقت پر نہ کرسکے۔
اب کچھ ایسا بھی تاثر بیچا جا رہا ہے کہ جناب اور جناب کی دختر کا اس پسپائی میں کوئی ہاتھ نہیں۔ جناب کے برادر نے جماعت کا صدر ہونے کے ناطےاور کچھ اپنی محبت کی وجہ سے ہمیشہ کی طرح گنجائش نکال لی ہے۔ گویا “سیلیکٹر” کے ہاں “سیلیکٹ” ہونے کی عرضی کی منظوری کے لئے اس کے علاوہ کوئ چارہ نہ تھا۔ مصلحت کی چکی میں جز وقتی طور پر اور “وسیع تر قومی مفاد میں” اصولوں کو پیسنا پڑا۔
جناب سے احتراما عرض ہے کہ اگر جناب اتنے ہی مجبور اور مشکل میں تھے تو کم از کم اپنے ووٹر اور سپورٹر کو کچھ بیان تو کرتے۔ جماعت جناب کی، ووٹ جناب کا،انتخابی نشان جناب کا اور برینڈ بھی جناب ہی کی۔ پھر اس قدر کیا مجبوری۔ جب تلک سچائی پوری دیانتداری سے لوگوں کے سامنے نہیں رکھیں گے، معذرت کے ساتھ ہدف تنقید بنتے رہیں گے۔ جس کار خیر کے لئے سو دکھ جھیلے، جس اصول کی خاطر اپنی بیمار زوجہ کے بستر سے روانہ ہوئے وہ اصول تو کب کا دفن ہوا۔
جس مشرف کو تاریخ میں نشان عبرت بنانے چلے تھے وہ موصوف بھی صاحب فراش سہی پر دبئی میں مقیم ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار سنگین غداری کا الزام ثابت کرنے کے بعد اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے بہت بڑا تیر مارا تو معذرت کے ساتھ، آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ مشرف کی ملکی تاریخ میں حیثیت ایک آمر کی ہی رہے گی۔لیکن موصوف کی اس حالیہ پسپائی نے جس تاریخی پیڈسٹل پر جناب کو بٹھا دیا تھا، اب اس سے ہمیشہ کے لئیے اتار دیا ہے۔
♦