طارق احمدمرزا
پاکستانی سیاسی منظرنامہ مچھلی مارکیٹ تو کب سے بنا ہو اتھا ہی،گزشتہ چند ماہ سے ” کارخانو مارکیٹ ” بھی بن چکا ہے۔
جو احباب شاپنگ کے لئے پشاور آتے جاتے رہتے ہیں ان کے لئے تو کارخانو مارکیٹ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن ان قارئین کے ازدیاد علم کی خاطر جو اس مارکیٹ کے نام اور مقام اور اس کے مخصوص ” کلچر” سے ناواقف ہیں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ درہ آدم خیل کی مشہورزمانہ باڑہ مارکیٹ ،جہاں “سب کچھ” باآسانی مل جایا کرتا تھا، اس میں ہونے والے غیر قانونی سرگرمیوں نیزآئے روز مختلف النوع آپریشنز کے نتیجے یا شاخسانہ میں لنڈی کوتل روڈ پر حکومت نے ڈیوٹی فری زون قائم کرکے ایک متبادل “باڑہ مارکیٹ” قائم کر دی تھی جہاں بظاہر ” فیکٹری آؤٹ لِٹ ” سامان فروخت ہوتا ہے۔یہ مارکیٹ آج سے کوئی پچیس تیس سال قبل قائم ہوئی تھی۔
پشتو میں فیکٹری آؤٹ لیٹ کا ترجمہ کارخانو مارکیٹ بنتا ہے اور پشاور سے اس نئی “باڑہ مارکیٹ” کے لئے جو مقامی بسیں چلتی ہیں ان کے کنڈیکٹر گلا پھاڑ پھاڑ کرکارخانو مارکیٹ،کارخانو مارکیٹ کے کان پھاڑ بلکہ دل پھاڑ نعرے لگاتے ہوئے سارا سارا دن سواریاں اچکتے نظرآتے ہیں۔
اس فیکٹری آؤٹ لیٹ کے قیام کا غالباًاصل مقصد یہ تھا کہ قبائلی علاقہ میں جو کارخانے اور فیکٹریاں انڈسٹریل زون میں قائم ہو نگی ان کا سامان یہاں براہ راست فروخت ہواکرے گا۔پھر ہو ا کچھ یوں کہ انڈسٹریل زون جو بننا تھا وہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ کس حد تک بن سکا ،یہ ضرور ہوا کہ مبینہ طورپر سمگلنگ کا جو بھی غیرقانونی سامان ہوتا ہے،خصوصاً کپڑا اور الیکٹرانکس ، وہ باڑہ مارکیٹ کی طرح یہاں ملنے لگ گیا۔یہ بھی عام کہا جاتا ہے کہ اس قسم کا سامان افغانستان کے نام پر درآمد کیا جاتا ہے اور راہداری، کسٹمز وغیرہ سے مستثنیٰ قرار دلوانے کے بعد افغان بارڈر سے ادھر ہی قبائلی علاقہ میں اتارلیا جاتا ہے۔
لیکن یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ یہ سامان آتا کہاں سے ہے ،اور مبینہ سمگلنگ کا یہ نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے ، بلکہ اس مارکیٹ کی جو تاجربرادری اور ان کے ٹاؤٹ ،سیلز مین ،دکاندار وغیرہ جو ہیں انہوں نے گاہکوں کو الو بنانے اور جھانسا دے کر اپنے شکنجہ میں پھنسانے کے لئے زبان و بیان،اداکاری وپرکاری کا جو کلچر قائم کیا ہوا ہے ، اس کا ذکر مقصود ہے۔
کارخانو مارکیٹ کے اس عیارانہ اور شاطرانہ تجارتی کلچر میں روایتی پشتون مہمان نوازی کی آمیزش کچھ اس طرح سے کی گئی ہوتی ہے کہ سادہ لوح اورپھر انگریزی سے نابلدگاہک(خصوصاً پنجاب سے آئے ہوئے گاہک) بیچارے بری طرح سے پھنس جاتے ہیں۔
ان دکانداروں میں زیادہ تر آفریدی پٹھان ہوتے ہیں،لیکن مہمند،شنواری،یوسفزئی وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ ان کا طرز کلام کچھ اس قسم کا ہوتا ہے جیسے قسمیں کھا رہے ہوں،حالانکہ وہ محض ایسے آفاقی یا زمینی حقائق یا عقائد بیان کر رہے ہوتے ہیں جو اکثرگاہکوں کے لئے مسلمہ اور غیر متنازعہ ہوتے ہیں۔یہ فقرے ان کی نوک زباں پہ دھرے ہر فقرے کے بعد تکیہ کلام کے طورپر ادا کئے جانے کے لئے بیقراررہتے ہیں۔
مثلاً اللہ کو جان دینی ہے، قبر میں جانا ہے ،اذان ہو رہی ہے،ظہر کا وقت ہے (یا عصر،مغرب وغیرہ)،رزق ہاتھ میں ہے، یہ ساتھ میرا معصوم بچہ بیٹھا ہے، اللہ کی رحمت یعنی بارش ہورہی ہے وغیرہ۔
چنانچہ کچھ اس قسم کے ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں کہ اللہ کو جان دینی ہے یہ ٹی وی دس ہزارسے کم کا نہیں، رزق ہاتھ میں ہے یہ شال پچیس ہزار کی ہے وغیرہ۔گاہک بیچارہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ دکاندار قسم کھا کر ریٹ بتا رہا ہے۔
اسی طرح اس کارخانو مارکیٹ میں دونمبر کا مال بھی اسی قسم کے تکیہ کلام اور منطقی طرزکلام کے ذریعہ سے اصل کے طورپر بیچ دیا جاتا ہے۔ بال پین،لپ سٹک اور جوتوں سے لے کر لیپ ٹاپ ، ٹی وی ،استری ، فرج ،ائر کنڈیشنر، وغیرہ تک جن پر میڈ اِن فرانس یا میڈ اِن جاپان کی بجائے “میڈ اَیز فرانس” یا “میڈ اَیز جاپان ” لکھا ہوتا ہے ، “اللہ کو جان دینی ہے،یہ دیکھ لیں میڈ ایز جاپان لکھا ہوا ہے ” کہہ کر پیش کیا جاتا ہے تو سادہ لوح گاہک اس کو اصل فرانسیسی یا جاپانی مال سمجھ کر بسا اوقات بیسیوں گنا زیادہ قیمت اداکرکے خوش خوش واپس وزیرآباد یا گوجرانوالہ لوٹ جاتا ہے ،کہ آج تو اچھی شاپنگ ہو گئی !۔
مزید سنیئے ، بعض اوقات بات صرف ” اللہ کو جان دینی ہے” تک ہی محدود نہیں رکھی جاتی بلکہ ایک قدم مزیدآگے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے اگر میں جھوٹ بولوں تو خدا مجھے مارے،(ما دے خدائے اُووَجنی)۔ ہمارے ایک بزرگ پشتون دوست نے اس ضمن میں یہ راز کی بات بتائی کہ اگر کوئی خدا کی قسم کھائے تو اس کا توڑ یہ ہے کہ تم اس کو کہوکہ اگر تم جھوٹے ہو تو تمہیں تمہارا پیر مارے (پیر دے اُووَجنی) ،تو اس کا رنگ پیلا پر جائے گا اور فوراً معافی مانگے گا کیونکہ یہ طبقہ دراصل خدا کی مار یالعنت سے نہیں بلکہ اپنے پیر کی ماریا لعنت سے ڈرتاہے۔ان کا یہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ جتنا مرضی جھوٹ بولو،جھوٹی قسمیں کھاؤ،قیامت کے دن ان کا پیر انہیں خداسے چھڑوا کر جنت میں داخل کر دے گا۔
تو قارئین کرام نئے پاکستان کے ایک وزیر صاحب کے بیانات سن سن کر راقم کوہربار یہی کارخانو مارکیٹ اور ا س کا ماحول اور کلچر یاد آجاتا ہے،جہاں زمانہ طالبعلمی میں اس طبقہ کی اداکاری اورچرب زبانی سے لطف اندوز ہونے ،اور دنبہ کڑاہی،کابلی پلاؤ کے مزے اڑانے دوستوں سمیت سال میں تین چار بار ضرورجایاکرتا تھا۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ جواب میں اس وزیر صاحب کو (علاوہ رشید بھٹی کے) ٹکرے بھی تو رانا ثناء اللہ صاحب ،جنہوں نے میڈیا ہی نہیں قومی اسمبلی میں بھی کارخانو مارکیٹ کا ماحول دوسری طرف سے بھی مکمل بنا دیا۔
چنانچہ آپ نے جواباً قرآن ہاتھ میں لے کر دو غیر متنازعہ اور مسلمہ امور (یا حقائق ) پر قسم کھائی۔پہلی یہ کہ اگر انہوں نے کبھی ہیروئن کا نشہ کیا ہو تو ان پر خدا کی لعنت اور عذاب نازل ہو،دوم اگر انہوں نے کسی ہیروئن سمگلر کی سفارش کی ہو کہ فلاں کو چھوڑ دو ،تب بھی ان پر خدا کی لعنت اور عذاب نازل ہو۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ خانہ کعبہ میں بھی یہی قسم کھانے کو تیار ہیں !۔
بنیادی اور اصولی طور پر راقم رانا صاحب کی اس قسم کو بھی ” اللہ کو جان دینی ہے” والا بیان ہی سمجھتاہے ،کیونکہ راقم کے علم کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ اُن پر ان دونوں باتوں یا ان میں سے کسی ایک کا کوئی کیس تو بنایا ہی نہیں گیا۔اور نہ ہی آپ نے یہ دونوں کام کئے ہونگے۔بے شک آپ تو خانہ کعبہ کے اندر جاکر بھی بلا خوف یہ قسم کھاسکتے ہیں !۔
غالباً محترم رانا صاحب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نیا پاکستان ہے ، کارخانو مارکیٹ والوں سے واسطہ ہے تو انہی کی بولی میں مال بکے گا یا واپس ہوگا،لیکن کہیں مناسب ہوتا کہ اپنے مخالفین پر خدا کی لعنت ڈالنے کی بجائے اُن پر اُن کے پِیرکی لعنت ڈالتے ، کیس اسی وقت ختم ہوجاتا بلکہ ا ب تک معافی نامے بھی داخل کرائے جا چکے ہوتے ۔۔آخر” اللہ کو جان دینی ہے !”۔
♦